ہاتھرس عصمت ریزی واقعہ نظریہ انصاف کا مذاق

   

برکھادت

ہاتھرس میں جو کچھ بھی ہوا اس خوفناک اور لرزہ دینے والے واقعہ پر بہت ساری آوازیں اٹھیں، بہت کچھ شور مچایا گیا لیکن یہ یقین کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ ایک ہفتہ قبل 19 سالہ دلت متوفیہ کا خاندان ایک ٹاؤن سے دوسرے ٹاؤن بھاگا پھر رہا تھا۔ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال جارہا تھا۔ پولیس اسٹیشنوں کے چکریں لگا رہا تھا لیکن اس وقت کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی، اسے نظرانداز کردیا۔ اسے اہمیت دینے سے گریز کیا اور پھر بھلا دیا۔

میری پہلی ملاقات اس خاندان سے اس وقت ہوئی جب وہ علاج کے لئے دہلی کے صفدر جنگ ہاسپٹل پہنچے۔ اس وقت متاثرہ لڑکی کے والد اور بھائی انتہائی بے بس و مجبور ہوگئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی اور اپنی بہن کے ساتھ پیش آئے اس شرمناک واقعہ پر ٹوٹ پھوٹ گئے ہوں۔ اس لڑکی نے بڑی عاجزی سے اپنے بھائی سندیپ سے کہا مجھے گھر لے چلو لیکن متاثرہ لڑکی سے صرف ایک سال چھوٹا اس کا بھائی کچھ مثبت جواب نہیں دے پایا۔ جس صبح اس لڑکی کی موت ہوئی مذکورہ الفاظ ہی اس کے آخری الفاظ تھے۔ سندیپ خود ایک پیتھالوجی لیباریٹری میں کام کرتا ہے اور اس لئے وہ کورونا وائرس کی اس عالمی وباء میں ایک محاذی ورکر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔ سندیپ نے مجھے بے شمار باتیں بتائیں جس سے اس کی برہمی اور رنج و الم کا اظہار ہوتا تھا، لیکن جب میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ آخر پچھلے 15 دنوں سے وہ کس طرح کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں اور کس دور سے گذررہے ہیں؟ تب سندیپ نے جو جواب دیا وہ آج بھی میرے ذہن سے ٹکرا رہا ہے۔ اس نے بتایا میری بہن کی 14 ستمبر کو اجتماعی عصمت ریزی کی گئی، اس کے بعد کسی نے ہم پر توجہ نہیں دی، ہماری مدد نہیں کی، بلکہ ہمیں نظرانداز کردیا لیکن بہن کی موت کے بعد ہر کسی نے ہم پر توجہ مرکوز کرلی۔ ہمارے بارے میں فکر و تشویش کا اظہار کیا۔ بہن کی موت سے پہلے تک سیاست دانوں اور میڈیا کے لئے ہم ایک طرح سے ان دیکھے تھے۔
ہاتھرس ریپ اور یوپی پولیس کی جانب سے فوری جوابی دعوے کے باوجود میں وہی کہوں گی جو متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان قبل از مرگ میں کہا تھا۔ اس کے باوجود یوپی پولیس کے جوابی دعوے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ہر ادارہ ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے چاہے وہ پولیس ہو یا پھر تاناشاہی اور سیاستداں ہم سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں۔ یوپی پولیس کا عجیب و غریب رویہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس رویہ پر ہر کوئی حیران ہے۔ پولیس نے جس طرح ایک نوجوان لڑکی کی نعش کی زبردستی رات دیر گئے آخری رسومات انجام دیں اور اس کے غم زدہ والدین، بھائیوں اور دیگر ارکان خاندان کو بھی آخری دیدار سے محروم رکھا اس سے پولیس کے غیر ذمہ دارانہ و غیر پیشہ وارانہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

وکلاء اور سینئر آئی پی ایس عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ ایک سینئر پولیس آفیسر کا یہ بیان کہ عصمت ریزی نہیں کی گئی اور اس سلسلہ میں فارنسک رپورٹ کے نتائج کو برسر عام کرنا عصمت ریزی واقعہ کی تحقیقات سے متعلق تمام اعداد و شمار کے خلاف ہے۔ ایک لمحہ کے لئے یہ سوچئے کہ اس نوجوان لڑکی کو ایک اسپتال کے بستر سے باندھا گیا ہے اور اس کے اپنے دوپٹے سے اس کا گلا گھونٹا گیا، اس کے ہاتھ پاؤ مفلوج کردیئے گئے۔ اس کی زبان کاٹ دی گئی کیا وہ اس غنڈہ گردی کے خلاف لڑنے کے لئے زندہ رہے گی؟ اگرچہ پولیس نے لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کئے جانے کی تردید کی ہے اور اس سلسلہ میں فارنسک لیاب رپورٹ پیش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لڑکی نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں دیئے گئے بیان یعنی بیان قبل از مرگ میں واضح طور پر کہا کہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے چار افراد نے اس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے۔ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے مجھے بتایا کہ ان لوگوں نے اس لڑکی کو خون میں لت پت پایا، اس کے جسم پر کپڑے بھی نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر تحقیقات میں کافی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جانی چاہئے، پورے وقار کے ساتھ یہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ تب ہی حقیقت سامنے آسکتی ہے۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ کوئی بھی ریاستی پولیس کے بیانات پر جو اس کیس کے سلسلہ میں دیئے جارہے ہیں یقین نہیں کررہا ہے، یعنی یوپی پولیس پر سے عوام کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ انصاف کے بارے میں بھی وہ لاپرواہ ہیں۔ حکومت کا اپنا ڈیٹا اس طرح کی ذلیل حرکتوں میں اضافے کی شرح کو ظاہر کرتا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے چند روز قبل ہی اپنے اعداد و شمار جاری کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ہر دن 87 خواتین کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے اور خواتین کے خلاف جرائم میں 7.3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یاد رکھئے یہ اعداد و شمار ان خواتین کے ہیں جنہوں نے اپنے پر گذرے حالات کے خلاف بولنے کا فیصلہ کیا آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنسی تشدد کسی ذات پات تک محدود نہیں ہے ان کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ عصمت ریزی کے ہر 11 واقعات میں 10 واقعات ایسے ہوتے ہیں جس میں دلت خواتین کو درندہ صفت لوگ اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کے خلاف جرائم کے معاملہ میں اترپردیش سرفہرست ہے۔ عصمت ریزی کے واقعات کے سلسلہ میں راجستھان پہلے مقام پر ہے اترپردیش میں پیش آنے والے عصمت ریزی کے واقعات میں 18 فیصد واقعات کا تعلق دلت خواتین سے ہوتا ہے جبکہ راجستھان میں عصمت ریزی کے 9 فیصد واقعات میں دلت خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ ملک میں دلت خواتین کے ساتھ منہ کالا کئے جانے کا ہر تیسرا واقعہ راجستھان اور یوپی میں پیش آتا ہے۔ ہندوستان کو خواتین کے لئے محفوظ بنانے کی بجائے غلط اعداد و شمار کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے والوں سے چوکس رہنا چاہئے۔ جنسی تشدد کے واقعات پر ادارہ جاتی ردعمل بہت اہم ہوتا ہے لیکن اس معاملہ میں اترپردیش پولیس کی کارروائی یا اس کا موقف انتہائی شرمناک ہے۔ ہر موڑ پر ان لوگوں نے مشکوک کردار ادا کیا ہے اور کلیدی فیصلے لینے میں اپنی ایجنسی کے خاندان کو لوٹا ہے۔

میں ان سیاست دانوں کی کوئی بڑی مداح نہیں ہوں جو المیہ کو موقع میں تبدیل کرتے ہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ متاثرہ خاندان جس سیاستداں سے ملنا چاہتا ہے مل سکتا ہے۔ راہول اور پرینکا گاندھی جیسے سیاستدانوں کو ہاتھرس جانے سے روکنا اور انہیں ایکسپریس وے کے قرب و جوار میں روک کر دھکم پیل کرنا بالکل غلط ہے۔ یہ پولیس کا کام نہیں بلکہ متاثرہ خاندان کا کام ہے کہ وہ راہول گاندھی یا پرینکا گاندھی سے ملے یا نہ ملے وہ اپنی مرضی کے مطابق یہ کام کرسکتے ہیں۔ اب تک ہندوستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ نظریہ انصاف کا مذاق ہے۔ جلد ہی یہ سرخی بھی بھلا دی جائے گی اور ہم آگے بڑھ جائیں گے۔ اس بات کا انتظار کرتے ہوئے کہ اگلا خطرناک حملہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار نہ کردے اور اس طرح کے حملے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔