ہارے ہوئے مودی کی چناوی بساط پر آخری چال اعلیٰ ذات ریزرویشن…

   

ظفر آغا
ملک میں ایک مرتبہ پھر ریزرویشن کا شور ہے اور اس کے علمبردار منڈل مسیحا وی پی سنگھ نہیں بلکہ ’کمنڈل مسیحا‘ مودی ہیں۔ پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کی مخالفت کرنے والی بی جے پی اس بار مودی کے ساتھ کھڑی ہیں۔
ذکر سال 1990 کی دہائی کے شروعاتی دور کا ہے۔ ویشو ناتھ پرتاپ سنگھ 1990 میں مرکز کی باگ ڈور سنبھال چکے تھے لیکن کچھ ہی مہینوں کے اندر اندرونی تنازعات کی وجہ سے ان کی حکومت ڈگمگانے لگی۔ کبھی ان کے نائب وزیر اعظم دیوی لال، تو کبھی چند شیکھر جیسے قدآور رہنما ہنگامہ آرائی میں کھڑے ہونے لگے۔ جلد ہی صاف ہو گیا کہ وی پی سنگھ کی حکومت اب زیادہ دنوں تک ٹکنے والی نہیں ہے۔ اچانک ایک روز حکومت نے منڈل سفارشات لاگو کر دیں۔ اس حکم کے مطابق ملک کے پسماندہ طبقات کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 27 فیصد ریزرویشن کا حق مل گیا۔ بس پھر کیا تھا، یہ حکم جاری ہوتے ہی گویا ملک میں ایک آگ لگ گئی۔ ہندو سماج اگڑوں اور پچھڑوں میں بٹ گیا۔ سورن بچوں نے خود کو آگ لگا کر خود کشی کرنی شروع کر دی اور ملک ذات پات کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔
ایک طرف ملک میں ذاتیات کی دراڑ پڑ ہی گئی تھی، دوسری طرف سنگھ پریور نے سوچا کہ کیوں نہ اس ہنگامہ کے حالات میں اپنی روٹی سینکی جائیں۔ بی جے پی نے اب رام مندر کا ایشو اٹھا لیا۔ اچانک ملک میں ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا شور اٹھ کھڑا ہوا۔ اڈوانی جی نے رتھ یاترا نکالنے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی بی جے پی کی حمایت پر منحصر وی پی سنگھ حکومت کو پارٹی نے دھمکی دے دی کہ ’رام مندر یا حکومت‘۔ وی پی سنگھ اس پر راضی نہیں ہوئے۔اڈوانی رتھ یاترا پر نکل پڑے۔ ملک میں ہندو-مسلم دنگے بھڑک اٹھے۔ ادھر اڈوانی جی کا رتھ بہار میں لالو پرساد نے روکا اور ان کو مرکزی حکومت کی منشا پر گرفتار کر لیا اور ادھر بی جے پی نے وی پی سنگھ حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ حکومت تو گئی لیکن ملک ذات پات اور فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس اٹھا۔ جنہوں نے 1990 کی دہائی کا وہ دور دیکھا ہے وہ اس کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
یہ لمبی تمہید اس لئے باندھی گئی کیونکہ ملک میں ایک مرتبہ پھر ریزرویشن کا شور ہے اور اس مرتبہ ریزرویشن دینے والے منڈل مسیحا وی پی سنگھ نہیں بلکہ خود ’کمنڈل مسیحا‘ مودی جی ہیں۔ منڈل کے خلاف کمنڈل یعنی پسمانددہ طبقات کے خلاف رام مندر کا کارڈ کھیلنے والی کمنڈل پارٹی بی جے پی اس مرتبہ مودی کے ساتھ ہے۔ وی پی سنگھ کو پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے لئے اس وقت میڈیا نے غدار ملک تک کہہ ڈالا تھا۔ لیکن آج وہی میڈیا نریندر مودی کی ریزرویشن کی چال کو ’ماسٹر اسٹروک‘ قرار دے رہی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کا ریزرویشن تھا اور یہ اعلیٰ ذاتوں کا
ریزرویشن ہے۔

سوال بہت سے ہیں اور جواب ابھی تک کم ہیں۔ جیسے، آخر چناؤ کا اعلان ہونے سے لگ بھگ تین ماہ پہلے مودی حکومت کو ملک کا آئین تبدیل کرنے ایسی کیا ضرورت پیش آگئی، کیا اس سے ملک کا بھلا ہوگا؟ اقتصادی پسماندہ لوگوں کے حق میں یہ 10 فیصد ریزرویشن اس وقت ہی کیوں؟
چناؤ جب سر پر کھڑے ہیں تو مودی جی کو اقتصادی پسماندگان کیوں یاد آ رہے ہیں! مجھے اس بات پر وی پی سنگھ کی یاد آ رہی ہے۔ انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات جس وقت لاگو کی تھیں اسی وقت یہ صاف ہو گیا تھا کہ ان کی حکومت دم توڑ رہی ہے اور اب اقتدار ان کے ہاتھ سے جانے والا ہے۔ عین اسی طرح نریندر مودی کو بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ 2019 میں دوبارہ اقتدار ان کے ہاتھ میں آنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی چناوی ہار کے بعد یہ طے ہے کہ ہندی زبان والی جن ریاستوں (ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ، دہلی، اتر پردیش اور بہار) سے بی جے پی کو کل 176 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان ریاستوں میں اگلے چناؤ میں بی جے کو 80-100 سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں بھلا مودی کا 2019 کا چناوی کھیل بگڑے گا یا نہیں!

ویسے مودی کی تو پوری چناوی بساط ہی بگڑ چکی ہے۔ وہی مودی جو سال 2014 میں چندن تھا اب 2019 میں راکھ ہو چکا ہے۔ مودی اب ایک ناکام وزیر اعظم ہے جو عوام کو وعدوں کے سبزباغ دکھا کر اقتدار میں تو آ گیا لیکن اس نے اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ملک کی معیشت درہم برہم ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی احمقانہ چالوں نے سب کی کمر توڑ دی ہے۔ دکاندار سڑکوں پر پولس کی لاٹھیاں کھا رہے ہیں۔ نوجوان نوکری کی تلاش میں ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ دکاندار اور متوسط کاروباریوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر بازار میں کب رونق نظر آئے گی! ظاہر ہے کہ ان حالات میں بھلا مودی جی ملک کے اگلے وزیر اعظم کیسے بنیں گے!
صاف ہے کہ خود مودی کو وی پی سنگھ کی طرح قدموں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آ رہی ہے اور اقتصادی طور پر پسماندہ اعلی ذاتوں کا 10 فیصد کوٹہ ہارے ہوئے مودی کی چناوی بساط پر آخری چال ہے۔ کوشش اس بات کی ہے کہ کسی طرح ملک کی ہر بحث اپنی ناکامیوں سے ہٹاکر ریزرویشن کے مسئلہ پر مرکوز کر دی جائے۔ اس کے بعد ملک رافیل، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بے روزگاری، کسانوں کی تکلیف، بینکوں کی ڈکیتی جیسے مودی کے گناہوں کو بھول جائے اور انہوں نے جو ریزرویشن کا جھنجھنا عوام کو دیا ہے اس کے راگ پر ملک کے شہری ان کو دوبارہ اقتدار تک پہنچا دیںلیکن، ’بڑی دیر کر دی مہربان آتے آتے!‘، اب وقت کم ہے اور ریزرویشن کا پیترا پرانا ہو چکا ہے۔ مودی سیاست کے ایک ماہر کھلاڑی ہیں لیکن وہ یہ کیسے بھول گئے کہ ملائم سنگھ، مایاوتی، اکھلیش، لالو اور شرد یادو جیسے منڈل کے بہترین رہنما کمنڈل کے ریزرویشن پر خاموش نہیں رہیں گے۔ خواہ ان سبھی نے پارلیمنٹ میں ریزیرویشن کی حمایت کی ہے لیکن یہ سب چناوی جنگ میں بھی مودی کی اس کوٹے کے لئے تعریف کریں گے! نہیں، ہرگز نہیں۔ اگر چناؤ جیتنے کے لئے مودی جی گجرات کے دنگوں میں ہزاروں افراد کا خون خرابہ خاموشی سے دیکھ سکتے ہیں تو دوسرے بھی اقتدار کی ہوڑ میں اگڑا پچھڑا کا رائتا پھیلا سکتے ہیں اور بلاشبہ پھیلائیں گے بھی۔
بس جلد ہی یہی ہونے والا ہے۔ یاد رکھئے اس مرتبہ ریزرویشن کی بھٹی سے جو سماجی دراڑ پیدا ہونے جا رہی ہے وہ جلد بجھ پانی مشکل ہے۔ لب و لباب یہ ہے کہ 2019 کے چناؤ تک ملک کو جو سماجی نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ لیکن مودی جی کو ملک کی فکر کہاں، انہیں تو صرف اقتدار کی فکر ہے۔ یہ کھیل تو ایسا ہے کہ اس میں دونوں کو ہی نقصان ہو سکتا ہے۔ آخر منڈل کے مسیحا وی پی سنگھ پھر کبھی اقدار میں واپس نہیں لوٹ پائے۔