ہر رافیل پر 1,968 کروڑ روپئے کا گھپلہ

   

راز فاش کرنے پر اخبار ہندو پر ’قوم دشمن‘ کا ٹھپہ

پی چدمبرم
اخبار : رافیل تنازعہ ماند پڑنے والا نہیں! اگر اسے پلوامہ دہشت گردانہ حملہ اور انڈین ایئر فورس کے جوابی حملے کی وجہ سے پس منظر میں ڈال دیا گیا تھا تو خود وزیراعظم مودی نے اپنے اشتعال انگیز ریمارک ’اگر ہمارے پاس رافیل طیارہ ہوتا …‘ کے ذریعے اس کو دوبارہ مرکز توجہ بنادیا۔ اُن کی بدقسمتی کہئے کہ اُن کے ریمارک کے اندرون دو یوم اخبار ’دی ہندو‘ نے رافیل معاملت پر ایک اور تحقیقی آرٹیکل شائع کیا۔ اس آرٹیکل نے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (C&AG) کے اخذ کردہ نتیجے کی ہوا اُڑا دی کہ این ڈی اے معاملت یو پی اے ڈیل کے مقابل 2.86 فی صد سستی ہے۔ (حکومت کا دعویٰ کہ اس نے جو قیمت طے کی وہ 9-20 فی صد سستی ہے، سی اینڈ اے جی کی رپورٹ میں مسترد کردیا گیا)۔
کونسی معاملت سستی رہی ؟
یہ مسئلہ نہایت سادہ ہے۔ یو پی اے معاملت کے تحت ڈسالٹ کمپنی کو بینک گیارنٹی اور پرفارمنس گیارنٹی دینے کی ضرورت تھی۔ این ڈی اے معاملت میں اُس ضرورت کو معاف کردیا گیا۔ ضمانت کی فراہم کیلئے بینک کسٹمر (زیربحث معاملے میں ڈسالٹ کمپنی) سے چارجس وصول کرے گا۔ وہ گیارنٹی کی ’لاگت‘ ہے، جس سے ہر بزنسمن واقف ہوتا ہے۔ رافیل معاملت میں چونکہ لگ بھگ 60,000 کروڑ روپئے کی رقم کا معاملہ ہے، اس لئے ضمانت کے چارجس مشکل معلوم ہوتے۔ اگر ایک معاملت گیارنٹی چارجس کے ساتھ ہے اور دیگر معاملت پر ضمانت کی لاگت کا دباؤ نہیں، تب شعورِ عام ہمیں بتائے گا کہ دونوں قیمتوں کا تقابل کرنے سے قبل پہلی معاملت میں شامل گیارنٹی چارجس کو ہٹا دینا چاہئے۔ سی اینڈ اے جی نے اعداد و شمار پیش کئے۔ انھوں نے چارجس کا حساب دو حصوں میں لگایا:
بینک گیارنٹی چارجس
AAB1 ملین یورو
پرفارمنس گیارنٹی اینڈ وارنٹی چارجس
AAB2 ملین یورو
جملہ
AAB3 ملین یورو
سی اینڈ اے جی نے کمپیوٹر حرفی ہندسے استعمال کئے کیونکہ اُس نے حکومت سے قیمت کی معلومات میں ’اصلاح‘ کرنے کا وعدہ کیا تھا! انھوں نے حکومت کے حق میں بڑا کام کردیا۔ تاہم، سی اینڈ اے جی کو اس طرح کا نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا گیا:
’’لہٰذا، AAB3 ملین یورو کی جملہ بچت جو فروخت کنندہ (کمپنی) کو بینک چارجس ادا نہ کئے جانے سے حاصل ہورہی ہے وہ منسٹری کو منتقل کردینا چاہئے تھا۔ وزارت نے بینک ضمانتوں پر آڈٹ کے حساب کتاب سے اتفاق کرلیا لیکن استدلال پیش کیا کہ یہ منسٹری کے حق میں بچت ہے کیونکہ بینک گیارنٹی چارجس ادا نہیں کرنا ہے۔ تاہم، آڈٹ نے نوٹ کیا کہ درحقیقت یہ بچت مسرز ڈی اے (ڈسالٹ ایوئیشن) کے حق میں ہے جب 2007ء کی اس کی سابقہ پیشکش سے تقابل کیا جائے۔‘‘
سی اینڈ اے جی نے قوم کو ناکام کیا
گیارنٹی چارجس بدستور عوام سے پوشیدہ رہے اور دونوں معاملتوں کی قیمتوں کے تعلق سے بامعنی تقابل نہیں کیا جاسکا۔ ’دی ہندو‘ کے آرٹیکل نے بڑی جانفشانی سے کام کرتے ہوئے ہندوستانی مذاکرات ٹیم (آئی این ٹی) کی رپورٹ سے معلومات حاصل کئے۔ بینک چارجس 574 ملین یورو تھے۔ اگر یہ رقم یو پی اے معاملت سے منہا کردی جاتی ہے اور دونوں معاملتوں کا تقابل کیا جائے تو این ڈی اے معاملت 246.11 ملین یورو مہنگی ہے۔ موجودہ شرح تبادلہ 80 روپئے کا حساب جوڑیں تو این ڈی اے معاملت 1968 کروڑ روپئے مہنگی ہے۔ صرف اس ایک نکتہ پر 36 طیاروں میں ہر ایک 54.66 کروڑ روپئے مہنگا ہوجائے گا۔
یہ تو معمہ ہے کہ کیوں دفتر وزیراعظم (پی ایم او) نے آئی این ٹی کی مساعی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متوازی مذاکرات کئے۔ یہ معمہ ہے کہ کیوں تین انسداد بدعنوانی فقرے حذف کردیئے گئے۔ یہ بھی معمہ ہے کہ کیوں پیمنٹ سکیورٹی سسٹم یعنی ملکی ضمانت، بینک گیارنٹی اور ایسکرو اکاؤنٹ کو نکال پھینک دیا گیا۔ ظاہر ہے یہ کام ڈسالٹ سے ’محبت و انسیت‘ کی بناء تو نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ یہ حقائق کسی بالواسطہ مقصد کا اشارہ دیتے ہیں۔ سی اینڈ اے جی کا فرض تھا کہ ان پُراسرار پہلوؤں کی جانچ کرتا اور سچائی کو آشکار کرتا۔ انھوں نے ملک کو مایوس کیا ہے۔ ’دی ہندو‘ اس معاملت کے پوشیدہ پہلوؤں کا یکے بعد دیگر افشاء کررہا ہے۔ اور حکومت کا ردعمل کیا ہے؟ حکومت اس اخبار کو ’مسروقہ دستاویزات‘ استعمال کرنے کا موردالزام ٹہراتے ہوئے فوجداری مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ یہ دھمکیاں دینے کیلئے حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آف انڈیا کو آگے کیا گیا۔
مشہور ’مسروقہ دستاویزات‘
یہ 2012-14ء کی بات ہے جب حکومت ہند نے سوئس بینکوں کے کھاتہ داروں کے نام حاصل کئے، جو ہیک کرکے فرانس اور جرمنی کو منتقل کئے گئے تھے۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے نوٹسیں جاری کئے، ٹیکس ڈیمانڈز تیار کئے اور مقدمات چلائے۔ کیا آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ’مسروقہ دستاویزات‘ کی اساس پر کارروائی کررہا تھا؟ اسی طرح، 2016ء میں 11.5 ملین دستاویزات ایک لا فرم کے کمپیوٹرز سے افشاء کئے گئے (کسی نے سرقہ کرلئے؟) اور جرمن اخبار Sueddeutsche Zeitung کو منتقل کئے گئے، جس نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس کے ساتھ ان کا تبادلہ کیا۔ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو اکاؤنٹ ہولڈرس جو ہندوستانی یا این آر آئیز تھے اُن کے نام جاری کرنے اور انھیں نوٹسیں دینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مشہور زمانہ پنٹگان پیپرز دراصل ایک خفیہ رپورٹ تھی جو امریکی وزیر دفاع نے ویتنام جنگ کے بارے میں تیار کرائی تھی۔ اس کا 1971ء میں افشاء ہوا۔ اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ ان کو شائع کرنے کی تیاری کررہا تھا۔ امریکی حکومت نے اخبارات پر مقدمہ دائر کیا۔ یو ایس سپریم کورٹ نے 6-3 کے ووٹ سے ’نیویارک ٹائمز‘ اور واشنگٹن پوسٹ کو وہ دستاویزات سنسرشپ یا سزا کے جوکھم کے بغیر شائع کرنے کی اجازت دے دی (403 U.S. 713)۔ جسٹس بلیک، جسٹس ڈوگلس، جسٹس برینن جونیئر، جسٹس اسٹیوارٹ، جسٹس وائیٹ اور جسٹس مارشل نے اظہار خیال کی آزادی کو قومی سلامتی کی مبہم فکرمندی پر مقدم رکھا اور کہا کہ معلومات کا پھیلاؤ جمہوری عمل کو مضبوط رکھنے کیلئے کلید ہے۔ کسی نے بھی ’مسروقہ دستاویزات‘ کی اصطلاح استعمال تک نہیں کی!
تاریخ اس مرتبہ ہندوستان میںخود کو دہرا رہی ہے۔ مسٹر مودی اور ان کے وزراء ’دی ہندو‘ کیلئے قوم دشمن یا ابتر اصطلاح کا استعمال کریں گے۔ ایسی لعن طعن سے قطع نظر قارئین یہ اخبار پڑھتے رہیں گے۔ رافیل طیارہ آئے گا۔ اس معاملت کی انکوائری ہوگی۔ سچائی آشکار ہوگی۔ قوم کی زندگی چلتی رہے گی۔