ہندوستانی مسلمانوں کے دو بڑے بوجھ طارق اسلم

   

ہندوستانی مسلمانوں پر دو بڑے بوجھ ہیں یعنی وہ ان دونوں بڑے بوجھ تلے دَبے ہوئے ہیں۔ پہلا بوجھ یہ ہے کہ انہیں ’’جناح‘‘ کو غلط ثابت کرنا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو زندگی بھر اپنی حب الوطنی ثابت کرنی ہوگی اور ہندوستان میں ان کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری جیسا سلوک روا رکھا جائے گا۔ دوسرا بوجھ مسلمانوں کیلئے یہ ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے خوابوں کے ساتھ زندہ رہیں یا زندگی گذاریں۔ مولانا نے ہندوستانی مسلمانوں سے جمہوری سکیولرازم کے چوکھٹے میں ترقی و خوشحالی اور احترام کا وعدہ کیا تھا۔
ہندوستان میں سال 2022ء مسلمانوں کیلئے اچھا سال ثابت نہیں ہوا۔ اس سال کا آغاز ’’بلی بائی‘‘ ایپ سے ہوا جس کے ذریعہ مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی گئی۔ اس طرح کی آن لائن بولی کے ذریعہ معزز مسلم خواتین پر حملہ کیا گیا۔ اس ایپ پر ان کی تصاویر پوسٹ کی گئیں، ان کی قیمتیں بتائی گئیں۔ غرض ان کی توہین میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ ’’بلی بائی‘‘ ایپ کے ذریعہ جن خواتین کو آن لائن بولیوں کیلئے پیش کیا گیا، ان میں ممتاز صحافی، حقوق انسانی کی جہدکار، مصنفین اور اداکارائیں شامل تھیں، جیسے ہی اس ایپ پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراض کرتے ہوئے احتجاج کیا جانے لگا۔ اسے فوراً ہٹا لیا گیا اور اس طرح کی گندی حرکت بلکہ بدترین جرم میں ملوث چند ملزمین کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ پھر انہیں ضمانتوں پر رہا بھی کردیا گیا، یہ کہانی صرف یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جنوبی ہند کی اہم ریاست کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ چھیڑتے ہوئے اُسے قومی اہمیت کے حامل سطح پر پہنچا دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم عمر لڑکے لڑکیاں بھی حجاب کا اہتمام کرنے والی مسلم لڑکیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہوئے نعرے بلند کرنے لگے۔ اس کے بعد باحجاب لڑکیوں کے وکلاء کے ذریعہ عدالت سے رجوع ہونے کو ترجیح دی اور عدالت سے رجوع بھی ہوئیں تب کرناٹک ہائیکورٹ نے مسلم خواتین کے خلاف فیصلہ دیا اور انہیں (مسلم طالبات) کو حکم دیا کہ وہ متعلقہ تعلیمی اداروں کے یونیفارم کوڈ یا یونیفارم کے رہنمایانہ خطوط کو اپنائیں۔ اس پر بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی حملوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ غیرسماجی عناصر میں مسلمانوں کے خلاف بکواس کرتے ان پر حملہ کرنے کا جذبہ اور اعتماد پیدا کیا جیسا کہ تریپورہ جیسی شمال مشرقی ریاست میں دیکھا گیا جہاں ایک مقامی لیڈر کی قیادت میں نکالے گئے مذہبی جلوس میں بطور خاص مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔
جاریہ سال رام نوی کے دوران ایک دائیں بازو کے ہندو گروپ کی قیادت میں مسلم اکثریتی علاقہ سے جلوس گذارا گیا۔ جلوسیوں نے اشتعال انگیز نغمے گائے اور فحش نعرے بلند کئے جس کے نتیجہ میں سنگباری کے واقعات پیش آئے۔ لوگوں کے مکانات، دوکانات کو نذرآتش کیا گیا جو دیکھتے ہی دیکھتے راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات کے کچھ مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوگئے۔
حال ہی میں بی جے پی کی ترجمان اعلیٰ نپور شرما اور دہلی بی جے پی یونٹ کا میڈیا انچارج نوین کمار جندال نے گستاخانہ کلمات ادا کئے۔ نپور شرما نے ایک ٹی وی مباحث کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جس کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست برہمی کا اظہار کیا گیا۔ عربوں نے اپنے ملکوں کی مارکٹوں یا بازاروں میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جس کے ساتھ ہی بی جے پی عرب ملکوں اور عرب تاجرین کو سمجھانے بجھانے کی خاطر نوین جندال کو پارٹی سے برطرف اور نپور شرما کو 6 سال تک کیلئے معطل کردیا اور دوسری جانب لوگوں نے دونوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا، احتجاجی مظاہرے کئے۔ بی جے پی نے دونوں ملزمین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عالمی دباؤ کو کم کرنے میں کامیاب رہی لیکن ہندوستانی مسلمان، نپور اور نوین کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے اور مختلف شہروں میں ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائے گئے۔ دونوں کے خلاف کارروائی اور گرفتاری میں ناکامی پر مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور دونوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ پولیس کے مطابق احتجاجیوں کی سنگباری کے نتیجہ میں احتجاج نے پرتشدد شکل اختیار کرلی جس کے باعث پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ پولیس فائرنگ ہوئی اور اس فائرنگ میں دو کم عمر نوجواں شہید ہوگئے۔ مدثر اور ساحل نے فائرنگ میں جام شہادت نوش کیا جبکہ مظاہرین کی اکثریت پرامن تھی۔ رانچی اور الہ آباد میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ اس کے ایک دن بعد ہی یوپی انتظامیہ نے جے این یو کالج کی سابق صدر اور سماجی جہد کار آفرین فاطمہ کے خوبصورت مکان کو یہ کہتے ہوئے منہدم کردیا کہ ان کے والد جاوید محمد احتجاجی مظاہروں کے پیچھے کارفرما اصل ذہن ہیں۔ انتظامیہ نے جاوید پر سازش رچنے کا بھی الزام عائد کیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جاوید کی اہلیہ، بیٹی اور خاندان کے دیگر ارکان کو بھی گرفتار کرلیا۔ جاوید کی اہلیہ کے نام پر موجود مکان پر بلڈوزر چلاتے ہوئے ایک اور مسلم خاندان کے خوابوں کو چکناچور کردیا گیا، جس وقت جاوید محمد کے مکان پر بلڈوزر چلایا جارہا تھا، اس وقت وہاں ٹھہرا ہجوم خوشی کے مارے تالیاں بجا رہا تھا، نعرے بلند کررہا تھا ۔ ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور نہ ہی آخری مرتبہ ہوگا۔