ہندوستانی میڈیا انڈسٹری کی بددیانتی

   

راج دیپ سردیسائی
نپور شرما اور نوین کمار جندال تنازعہ کے بعد انڈین ٹی وی نیوز میڈیا (ہندوستانی ذرائع ابلاغ خاص طور پر ٹی وی چیانلس پر دائیں اور بائیں بازو دونوں نے شدید تنقید کی۔ آخر الذکر کا استدلال ہے کہ ان ٹی وی چیانلوں نے نفرت پھیلانے والوں کو پلیٹ فارم فراہم کیا۔ خاص طور پر ہندوتوا عناصر کو آگے بڑھایا تاکہ وہ فرقہ پرستی کا زہر گھول سکیں۔ دائیں بازو کا اصرار ہے کہ ٹی وی کے خبروں میں مسلم فرقہ پرستوں کو چنندہ طور پر اپنی برہمی ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سچ کیا ہے۔ پہلے ہم بائیں بازو کے آزادانہ دلائل کو دیکھتے ہیں کہ آیا ہندوستان ٹیلی ویژن نیوز نفرت پھیلانے والوں کو اپنے پروگرامس میں جگہ دے رہا ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گئی گنجائش نہیں۔ فی الوقت سارے ملک میں فرقہ پرستی اور نفرت کا زہر گھولنے والوں کو ان چیانلوں میں بہت زیادہ جگہ دی گئی ہے اور اس بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسے عناصر کو ٹی وی چیانلوں کی خبروں اور مباحث میں جگہ نہیں دی گئی تھی۔ اس معاملے میں ہم حکومت کے زیرکنٹرول دوردرشن جس کی 1990ء کے دہے میں الیکٹرانک میڈیا پر پوری طرح اجارہ داری تھی، تقریباً 400 ایسے خانگی نیوز چیانلوں پر جو دن کے 24 گھنٹے یعنی 24×7 اپنے پروگرامس نشر کرتے ہیں۔ ان کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ تجسس پیدا کرنے والے پروگرامس اور خبروں کے معاملے میں زبردست مسابقت جاری تھی لیکن اس میں وہ شدت نہیں تھی جو آج دیکھنے میں آرہی ہے۔یہ ٹی وی نیوز چیانلس خبریں ہو یا تبصرے مباحث وغیرہ تمام میں سنسنی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں صرف اپنی ٹی آر پی سے واسطہ ہے۔ امن و امان سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نیوز چیانلس اس قدر سنسنی خیز خبریں پھیلا رہے ہیں کہ بریکنگ نیوز کا تصور بھی ختم ہوگیا۔
یہ تبدیلی معاصر نیوز ٹی وی فارمیٹ کو ظاہر کرتی ہے جہاں لوگوں کو مذہبی خطوط پر یا مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کے مباحث تو نیوز آپریشنس ڈیزائن کرنے کا ایک ارزاں یا سستا طریقہ کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے ۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب فیلڈ پر پہنچ کر رپورٹنگ کرنا نیوز ٹی وی کیلئے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں اینکرس کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور سردست نیوز کی بجائے نوائز (چیخ و پکار) کے دور کی اجارہ داری ہے۔ مباحث کی نوعیت بھی ڈرامائی طور پر تبدیلی ہوگئی ہے۔ میں آپ کو 1990ء کی دہائی کا وہ واقعہ یاد دلاتا ہوں جب کانگریس کے ایک اہم ترین لیڈر وی این گڈگل کو سکیولرازم پر تحریر کردہ ان کے مضمون پر مباحث کیلئے مدعو کیا گیا۔میں نے اس مباحث میں ایک اور قابل شخصیت و دانشور ارون شوری کو مسٹر گڈگل کے ساتھ حصہ لینے کیلئے مدعو کرنے کا منصوبہ بنایا۔ گڈگل نے یہ کہتے ہوئے بڑی انکساری سے انکار کردیا کہ میں نہیں چاہتا کہ ایک پیچیدہ مسئلہ ’’تو تو میں میں‘‘ تک محدود ہوکر رہ جائے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ کسی ایک موضوع پر بحث یا مباحث کیلئے ٹی وی اسکرینس پر ہمیں ایک دو نہیں بلکہ دس دس سر دکھائی دے رہے ہیں جو ایک دوسرے پر بڑے ہی بھونڈے انداز میں چیختے چلاتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ اگر آج کئی سروں پر مشتمل راون مباحث میں حصہ لیتے ہیں تو مسٹر گڈگل کیا جواب دیئے ہوتے یا وہ کیا جواب دیں گے۔ ٹی وی پر مباحثہ میں کئی لوگوں کا ایک ساتھ چیخ و پکار کرنا صرف ایک ہندوستانی رجحان نہیں ہے۔ اور ایک اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر روایتی خبروں کے جمع کرنے کے شعبہ میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ ہر چیانل کو TRP کی فکر ہے اور ہر کوئی ٹی آر پی کو ہی اہمیت دے رہا ہے۔ ان پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ زیادہ تر نیوز چیانل اس بات پر قائل ہوچکے ہیں کہ مذہبی شناخت جیسے تخریبی مسائل پر غیرسنجیدہ مباحث سنجیدہ موضوعات پر دانشورانہ اور بامعنی بحث سے کہیں زیادہ ناظرین کو کھینچ لائیں گے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ جب صارفین کا افراط زر مئی میں 8 سال کی انتہائی بلندی پر پہنچ گیا تب ہندوستان کے اکثر نیوز چیانلوں نے اسے نظرانداز کردیا تھا جبکہ مہنگائی کی مار سے عام آدمی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ مہنگائی کی خطرناک سطح پر پہنچنے جیسی خبر پر توجہ دینے کی بجائے نیوز چیانلوں نے اپنی ساری توجہ گیان واپی مسجد پر مرکوز کردی۔ آپ کو بتادیں کہ فاکس نیوز نے اسٹرائیڈس نیوز ماڈل (امریکہ میں نفرت پھیلانے والے ٹی وی نیٹ ورک سے حاصل ہونے والا حقیقی فائدہ کا حوالہ) پروگرام پیش کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے اسکرین پر خبروں یا رپورٹس کی ساکھ ہمیشہ افراتفری کی خبروں سے شکست کھا جاتی ہے اور اشتہارات کے ذریعہ چلائے جانے والے کاروبا، صحافتی اقدار کو پامال کردیتے ہیں، لیکن اس کیلئے نیوز روم کے ایڈیٹروں کو تنہا کیوں ذمہ دار قرار دیتے ہیں؟ بہرحال ایک نیوز روم تنازعات میں گھری سیاست کی سنگین حقیقت کا آئینہ دار ہے جہاں نفرت انگیز تقریر یا بیان کو معمولی بتایا جارہا ہے۔ جو لوگ نیوز چیانلوں پر نفرت پھیلانے کے الزام عائد کرتے ہیں، وہ آسانی سے یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ نوپور شرما اور جندال جیسے عناصر ہمارے سیاسی دھارے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ کس طرح فرقہ پرستی اور نفرت کے زہر سے آلودہ ہوا ہے ، یہ سب جانتے ہیں حالانکہ حکومت نوپور شرما اور نوین کمار جندال کو فرقہ وارانہ عناصر کہتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ رہی ہے۔ اب ٹی وی میڈیا تعصب سے متعلق دائیں بازو کے معاملے پر غور کریں۔ برسوں سے ہندوستان کی مرکزی دھارے یا مین اسٹریم میڈیا پر بائیں بازو کے آزاد خیال عناصر کے کنٹرول ہونے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں جو متبادل نظریات یا خیالات کی توہین ہے۔ اب حالات اس قدر سنگین ہوگئے ہیں کہ ہر کوئی یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ آج کل میڈیا پر دائیں بازو کے نظریات و خیالات کا اثر بڑھ گیا ہے جس کا نتیجہ سارا ملک دیکھ رہا ہے اور ملک کے حالات خود بتا رہے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔