ہندوستان ،بی جے پی قیادت میں کدھر جارہا ہے

   

رام پنیانی

ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ پارٹی جس نے تحریک آزادی کی قیادت کی تھی، یعنی انڈین نیشنل کانگریس انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کرتی رہی اور سب سے بڑی اپوزیشن ، کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی رہی۔ ان جماعتوں نے آئی این سی کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ بھارتیہ جن سنگھ کے قیام کے بعد بھی ہندوستانی سیاست میں دور دور تک اس کا اتہ پتہ نہیں تھا جہاں تک بھارتیہ جن سنگھ کا سوال ہے، آگے چل کر یہی سنگھ بی جے پی میں ڈھل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا سنگھ بی جے پی کا سابقہ اوتار ہے۔ کافی عرصہ تک بی جے پی بھی کانگریس اور کمیونسٹوں کے قریب نہ آسکی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اہم انتخابی موضوعات ،صنعتی ترقیاتی پالیسیوں ، عوامی بہبود، روزگار اور معاشرہ کے سماجی خاکوں کے اطراف گھوما کرتے تھے۔ رام مندر، ذبیحہ گاؤ، لو جہاد، گھر واپسی اور ہندو خطرہ میں ہیں جیسے موضوعات اور نعرہ کہیں دکھائی اور سنائی نہیں دیتے تھے اور سوشلزم ہر سیاسی جماعت کا ایک بااحترام خواب ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ جب جنتا پارٹی کے آر ایس ایس ارکان نے اسے توڑ کر بی جے پی بنائی، ان لوگوں نے بھی اپنی پارٹی کا آغاز گاندھیائی سوشلزم کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کیا مطلب یہ کہ بی جے پی والوں کے سیاسی سفر کا پہلا نعرہ بھی گاندھیائی سوشلزم تھا، لیکن سات دہوں بعد ملکوں کا سارا سیاسی منظر نامہ بدل کر رہ گیا۔ انتخابی سیاست اور انتخابی منظر نامہ بدترین شکل اختیار کرگیا اور اب حال یہ ہے کہ فی الوقت اس پر جذباتی مسائل و موضوعات چھائے ہوئے ہیں اور اس کیلئے رام مندر تحریک ذمہ دار ہے، جس کے ذریعہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی دوسری ذیلی تنظیموں نے ملک اور عوام کو درپیش حقیقی مسائل پس پشت ڈال دیئے۔ رام مندر تحریک، منڈل کمیشن رپورٹ پر عمل آوری کے بعد بہت زیادہ مستحکم ہوئی۔ جب سے جذباتی اور شناخت کے مسائل میں اضافہ ہوا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019ء میں کسی بھی سیاسی جماعت نے لفظ ’’سکیولرازم‘‘ استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی جیسے کہ 2019ء عام انتخابات کے فاتح مسٹر نریندر مودی نے خود دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے اُسے آر ایس ایس۔ بی جے پی کی سیاسی کامیابیوں کیلئے کی گئی کوششوں کو ایک ٹرافی کے طور پر پیش کیا، ملک میں ایسا ماحول تیار کیا گیا۔ فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیاد پر ایسی فضاء تیار کی گئی کہ ہر مسئلہ کو بہ آسانی مذہبی رنگ دیا جاسکتا ہے جیسا کہ ہم نے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران دیکھا کہ کس طرح ایک انسان دشمن وائرس کو بھی مذہب سے جوڑ دیا گیا اور کورونا جہاد جیسی اصطلاح گھڑ لی گئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شناخت کے موضوعات کو کیسے ایک سیاسی کھیل میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے چند دہوں سے بی جے پی اس فن کی ماہر ہوگئی ہے۔ دوسری طرف میڈیا بھی بی جے پی کے نظریہ یا آئیڈیالوجی کو پھیلانے میں بڑی دیانت داری اور وفاداری سے کام کررہا ہے اور ملک میں جو فرقہ واریت کی فضاء چھائی ہوئی ہے، اسے پھیلانے اور اسے فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہا ہے۔
آپ کو دہلی فسادات یاد ہوں گے، شاہین باغ کے تناظر میں دہلی تشدد برپا کیا گیا اور اس کا الزام بڑی آسانی کے ساتھ روہنگیائی مسلمانوں کے سر تھوپ دیا گیا جبکہ مسلمانوں کے خلاف کی گئی تمام شرانگیز تقاریر و بیانات پر پردہ ڈالا گیا۔ جب بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کے ملزمین اور اس کے ارکان خاندان کے قاتلوں کی سزائے عمر قید معاف کرتے ہوئے ان کی رہائی پر سوالات اٹھائے گئے تب بھی کجریوال کے نائب اور دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسوڈیا کا کہنا تھا کہ یہ ان کیلئے ایک بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اروند کجریوال اس وقت بھی خاموش رہے جب گجرات کے کھپڑا میں مسلم نوجوانوں کو ایک کھمبے سے باندھ کر بے تحاشہ زدوکوب کیا گیا۔ انہیں بے رحمی سے پیٹا گیا۔ ہاں کجریوال اس وقت بھی بے نقاب ہوگئے جب عام آدمی پارٹی حکومت کے وزیر راجندر پال گوتم نے ہندو مذہب ترک کرکے ہزاروں ہندوؤں کے ساتھ بدھ مت اختیار کرلیا اور ساتھ ہی بدھ مت قبول کرتے ہوئے وہ 22 عہد بھی لئے جو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ہندو مذہب ترک کرکے بدھ مت قبول کرنے کے دوران لئے تھے۔ راجندر گوتم کے بدھ مت قبول کرنے کے ساتھ ہی بی جے پی نے گجرات میں یہ مہم شروع کردی کہ کجریوال ہندو دشمن ہیں۔ جواب میں بڑی ہشیاری سے کجریوال نے بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے جواب دیا اور فوری اس بات کا مطالبہ کردیا کہ کرنسی نوٹوں پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر شائع کی جائیں جس پر خود کو ہندوتوا کی سب سے بڑی دعویدار سمجھنے والی بی جے پی پریشان ہوگئی اور یہاں تک کہہ دیا کہ ایک سکیولر مملکت میں ایسا نہیں کیا جانا چاہئے۔ بی جے پی کجریوال کے بیان سے جان گئی کہ وہ اس کے ہندوتوا کے خلاف ’’الٹرا ہندوتوا‘‘ کا نعرہ بلند کرنے لگے ہیں۔ جہاں تک کرنسی نوٹوں پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر شائع کرنے کا سوال ہے، کجریوال ایک آئی آئی ٹی گریجویٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کرنسی نوٹوں پر ان تصاویر کے شائع کرنے سے قومی معیشت میں بہتری آئے گی، یہ ایک طرح سے سائنٹفک ؍ معقول سوچ و فکر پر حملہ کی ایک حتمی مثال ہے۔ کجریوال کی بہ نسبت ایسے بے شمار آئی آئی ٹیز نے ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور معقولیت پر مبنی طریقہ کار اختیار کرکے فینانس کے شعبہ میں بہت بڑے کام کئے ہیں۔ کجریوال کی طرح کرنسی نوٹوں پر لکشمی اور گنیش کی تصاویر شائع کرنے جیسا مشورہ ان لوگوں نے نہیں دیا۔ ایسا مشورہ دراصل سائنٹفک سوچ و فکر پر ایک حملہ ہے۔ کجریوال اپنے اس بیان کے ذریعہ اس سائنٹفک مزاج کو مزید کمزور کررہے ہیں جو نریندر مودی کے اس بیان سے بنا تھا جس میں مودی نے کہا تھا کہ زمانہ قدیم میں یقینا ایک پلاسٹک سرجن رہا ہوگا جس نے ایک بچہ کے سر کی ہاتھی کے سر سے پیوندکاری کی۔ اسی طرح کی نامعقول غیرسائنٹفک سوچ و فکر بی جے پی حکومت کی سائنسی تحقیقی پالیسیوں میں نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی آئی ٹی دہلی پنچ گویہ (گائے کے دودھ، دہی، گھی، پیشاب اور گوبر) پر ریسرچ کے ایک پروگرام میں تعاون کررہی ہے، لیکن شرط یہ عائد کی گئی کہ جس گائے پر ریسرچ ہورہی ہو، وہ جرسی نسل کی نہ ہو، ایک اور مضحکہ خیز پراجیکٹ AIIMS کا ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس طب کا ایک باوقار ادارہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حالت کوما میں جانے والوں کو کوما سے باہر لانے کیلئے مہامرتیونجے جاپ سے متعلق اس میں اسٹیڈی شروع کی جانے والی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی اس راہ پر گامزن ہوچکی ہے جو حقیقت میں فرقہ وارانہ سیاست کا ایک متبادل نمونہ ہے۔ وہ بڑی چالاکی سے اپنا ہندوتوا ؍ فرقہ وارانہ کارڈ کھیل رہی ہے۔ کجریوال کی پارٹی آمرانہ روش پر چل رہی ہے۔ یہ ایک ایسی پارٹی بن گئی ہے جس میں کجریوال جس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کے پارٹی قائدین بھی اسی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ کجریوال جو باتیں کرتے ہیں، ان ہی باتوں اور جملوں کو ان کی پارٹی ایم ایل ایز اور دوسرے قائدین دہراتے ہیں۔ ان کی مثال آتشی مارلینا کا وہ بیان ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ کرنسی نوٹوں پر لکشمی۔ گنیش کی تصاویر شائع کرنے کا مطالبہ صرف کجریوال کا نہیں بلکہ یہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی خواہش ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عاپ، بی جے پی اور نریندر مودی کی نقل ہے کیونکہ مودی جس وقت گجرات کے چیف منسٹر تھے، اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ 5 کروڑ گجراتیوں کی جانب سے بول رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عام آدمی پارٹی، دراصل آر ایس ایس کی حمایت یافتہ انا ہزار تحریک کی پیداوار ہے۔ اروند کجریوال نے حالیہ عرصہ کے دوران جو کچھ بیانات دیئے، آرٹیکل 370، شاہین باغ احتجاج، کھیڑا اور بلقیس بانو کے ساتھ ہوئی ناانصافی پر جو موقف اختیار کیا، اسے ایسے سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ اقلیتوں کے خلاف فرقہ پرستی نہیں لیکن ان سے مسلمانوں (اور عیسائیوں) کو جو پیغام پہنچا، وہ بالکل واضح ہے۔
ہندوستان کو ایک ایسی حساس جماعت کی ضرورت ہے جو سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلے۔ مساوات، وقار و احترام اور بہبود کا سب کو حصہ دار بنائے، اور جو بیروزگاری دور کرتے ہوئے سماج کے کمزور طبقات کی مدد کرنے ہمیں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو مذہب کو سیاست سے خلط ملط نہ کرے۔ عام آدمی پارٹی لکشمی اور گنیش کی تصاویر کرنسی نوٹوں پر شائع کرنے کا تو مطالبہ کررہی ہے اور دوسری طرف وہ جن لوک پال کو تاریخ کے کوڑا دان کی نذر کررہی ہے۔