ہندوستان میں مسلمانوں کی امکانی نسل کشی کی وارننگ

,

   

ہندو توا نظریہ کے خلاف رول ادا کرنے عالمی برادری پر زور : صدر جینوسائیڈ واچ

واشنگٹن : ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے امریکہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی کونسل کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی سے خبردار کیا ہے ۔انہوں نے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ ہندوستان میں ہندوتووا نظریات کے خلاف اپنا رول ادا کرے۔روانڈ میں 1994 میں نسل کشی سے برسوں قبل پیش گوئی کرنے والے جینوسائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے روانڈا اور میانمار میں ہونے والے واقعات کا نریندر مودی کی حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ہندوستان میں اسی طرح مستقبل قریب میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوسکتی ہے۔ جینوسائیڈ واچ کی بنیاد 1999 میں رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد دنیا بھر میں نسل کشی کا انسداد ہے اور اس کے بانی امریکہ میں ورجینیا کی فیئرفیکس کاؤنٹی میں جارج میسن یونیورسٹی کے شعبہ جینوسائیڈ اسٹڈیز اینڈ پریوینشن میں سابق محقق اور پروفیسر ڈاکٹر اسٹینٹن ہیں۔ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے انڈین امریکن مسلم کونسل کی جانب سے منعقدہ ’کال فار جینوسائیڈ آف انڈین مسلمز‘ کے عنوان سے کانگریشنل بریفنگ کے دوران ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی سے خبردار کیا جہاں وہ 5 رکنی پینل کا حصہ تھے جنہیں سیشن میں خطاب کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے اپنا ویڈیو خطاب جینوسائیڈ واچ کی جانب سے ہندوستان میں 2002 سے نسل کشی کے حوالے سے کیے گئے انتباہ کو نمایاں کرتے ہوئے شروع کیا، ‘جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا اور ہزاروں مسلمان جاں بحق ہوئے تھے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تھے اور انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا، درحقیقت، کئی ثبوت ہیں کہ انہوں نے قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی’ اور مودی اب ہندوستان کے وزیراعظم ہیں اور انہوں نے اپنی سیاست کو وسیع کرنے کے لیے مسلمان مخالف، اسلاموفوبیا کی بیان بازی کا استعمال کیا۔ڈاکٹر اسٹینٹن کا کہنا تھا کہ دو طریقوں سے یہ کیاگیا جس میں سے ایک کشمیر میں 2019 میں خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور دوسرا اسی برس شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا گیا۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا مقصد وادی کو ہندو اکثریتی علاقہ بنانا تھا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور مزید یہ کہ شہریت کے قانون میں ترمیم بھی خصوصی طور مسلمانوں کے حوالے سے کی گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہاجرین کوخصوصی حیثیت دی گئی ہے، یہ مخصوص مذہبی گروپس ہیں لیکن ایک گروپ کو خارج کیا گیا ہے وہ مسلمان ہیں’۔جینوسائیڈ واچ کے بانی نے بتایا کہ ‘یہ قانون خصوصی طور پر مسلمانوں پر تھا جنہوں نے1971 کی جنگ میں نسل کشی کے دوران بنگلہ دیش سے نقل مقام کر کے آسام میں رہائش اختیار کرلی تھی’۔ڈاکٹر اسٹینٹن نے کہا کہ اس طرح کے تقریباً 30 لاکھ لوگ ہیں اور اکثریت مسلمانوں کی ہیں، جو ہندوستان میں آئے تھے اور ہندوستان کے مستقل شہری کی حیثیت سے مقیم تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہی کچھ ‘عین اسی طرح میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ 2017 میں کیا تھا’ اور میانمار کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے روہنگیا کو غیرشہری قرار دیا اور پھر انہیں تشدد اور نسل کشی کے ذریعے ملک بدر کردیا۔ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے اس حوالے سے اقوام متحدہ جینوسائیڈ کنونشن کو بھی نمایاں کیا جو ایک عالمی معاہدہ ہے جس میں نسل کشی کو جرم قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی یہ وارننگ جینو سائڈ کے سائنٹیفک ماڈل کے دس مراحل پر مبنی ہے ۔ ہندوستان میں یہ دس مراحل پار ہوچکے ہیں جس سے تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے ۔