ہندوستان میں کورونا متاثرین کی تعداد ہوجا ئےگی 70 ملین

   

کرن تھاپر
ایک جامع اور تفصیلی انٹرویو میں عالمی سطح پر صحت عامہ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین میں سے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ کووڈ ۔ 19 سے اگرچہ ہندوستان میں یومیہ 75 ہزار تا 77 ہزار افراد متاثر ہورہے ہیں اور یہ اعداد و شمار حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یومیہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر غیر اندراج شدہ کیسیس کو اس میں شامل کرلیا جائے تو یومیہ ہندوستان میں کووڈ ۔ 19 سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 5 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ہم بات کررہے ہیں پروفیسر آشیش جھا کی جو ہاورڈ گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے ان حقائق کا انکشاف Gu Model کی بنیاد پر کیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم 85 فیصد کیسیس کو نظرانداز کیا جارہا ہے یعنی اس کو شمار میں نہیں لایا جارہا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں جس قدر ٹسٹ کئے جانے چاہئے تھے اتنی تعداد میں ٹسٹ نہیں کئے جارہے ہیں۔ جہاں تک کورونا وائرس کے مثبت کیسیس کا سوال ہے ان کی شرح 8 اور 9 فیصد کے درمیان ہے جبکہ اسے دو یا تین فیصد کی سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔ سردست مثبت شرح ان علاقوں میں ہے جہاں کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری پر تقریباً قابو پایا جاچکا ہے جیسے جنوبی کوریا اور امریکی ریاست نیویارک جہاں یہ شرح ایک فیصد ہے۔ پروفیسر آشیش جھا مزید کہتے ہیں کہ ہندوستان میں حکومتی سطح پر کورونا وائرس متاثرین کی جو تعداد بتائی جارہی ہے وہ تقریباً 3.5 ملین ہے۔ اگر آپ اس میں غیر اندراج شدہ کیسیس کو شامل کرتے ہیں تو متاثرین کی تعداد 35 ملین اور 70 ملین کے درمیان ہوگی۔ یہ اعداد و شمار سنٹر فار ڈیسیز کنٹرول امریکہ کی جانب سے اپنائے گئے اصولوں کی بنیاد پر قیاس کئے جاتے ہیں۔ اس اصول کے مطابق ہر درج کردہ انفکشن کے لئے امکانی طور پر مزید 10 کیسیس پائے جاتے ہیں جن کا اندراج عمل میں نہیں آتا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے پروفیسر جھا نے اس بات پر خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس وقت کیا ہوگا جب کورونا وائرس کی وباء دہلی اور ممبئی جیسے میٹروپولیس شہروں سے پھیل کر 2 ٹائر اور 3 ٹائر ٹاؤنس اور پھر دیہی ہندوستان تک پھیل جائے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اترپردیش اور بہار میں وباء ہندوستان کے شہری علاقوں کی بہ نسبت بہت سست ہوگی کیونکہ دیہی علاقوں میں آبادی کم ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں نظام صحت بہت کمزور ہے اور یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹرس کے نیم حکیم خطرہ جان بننے کے زیادہ سے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ انہیں کورونا وائرس سے نمٹنے کی تھوڑی یا پھر زیادہ تربیت حاصل نہیں ہے اور جہاں تک ٹسٹنگ سہولتوں کا سوال ہے یہ ہمیں نظر نہیں آتی یا پھر سہولتیں ہیں بھی تو بہت کم ہیں۔ زیادہ تر اسپتالوں میں بنیادی خدمات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آیا وہ دی وائر کو 20 جون کو دیئے گئے اپنے انٹرویو کے دوران اختیار کردہ موقف پر قائم رہیں گے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نومبر یا اس کے بعد بھی ہندوستان میں کورونا وائرس نقطہ عروج پر نہیں پہنچے گا۔ جواب میں پروفیسر جھا نے بتایا کہ ایسے چند ماڈلس ہیں جو اب اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ کورونا وائرس وباء جلد یا بہ دیر نقطہ عروج پر پہنچ جائے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پروفیسر جھا نے یہ بتایا کہ اگر ستمبر کے اواخر میں وباء نقطہ عروج پر پہنچتی ہے بھی تو ہندوستان میں ایک طویل عرصہ تک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ویسے بھی مریضوں کی تعداد نقطہ عروج کے بعد ڈرامائی طور پر کم نہیں ہوگی بلکہ کئی ہفتوں تک اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ دہلی، پونے، امرتسر جیسے شہروں اور ممبئی کے سلم علاقوں میں کئے گئے سیرالوجیکل سرویز کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر جھا کا کہنا تھا کہ دو وجوہات کی بناء پر یہ خبر اچھی ہے۔ ان سرویز میں انفکشن کی سطح 29 فیصد اور 65 فیصد کے درمیان بتائی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو وجوہات کیا ہیں؟ پہلی وجہ یہ ہے کہ شہریوں میں مدافعتی قوت مستحکم ہوئی ہے۔ اس سے وائرس تیزی سے پھیلنے کی بجائے سست روی کا شکار ہو جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ مثبت پائے گئے ہیں ان میں سے مرنے والوں کی تعداد ہم جو سوچ رہے ہیں اس سے بھی کم ہے۔ پروفیسر جھا مزید کہتے ہیں کہ ماہرین وبائیات کی رائے انفکشن کے فیصد پر منقسم ہوگئی ہے۔ پروفیسر جھا کے مطابق ہندوستان جیسے ملک میں اگر متاثرین کی تعداد 70 ملین تک بھی پہنچ جائے تو ہمارے ملک کی جملہ 1.3 ارب آبادی کے مقابلہ یہ بہت ہی کم فیصد ہوگا۔