مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
آج سارے ہندوستان میں دستور اور دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے تعلق سے مباحث چل رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں دستور ہند کے تعلق سے مباحث ہوئے ۔ حکومت نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میںدستور سے زیادہ اہم کچھ نہیںہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے بارہا یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت دستور کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔ دستوری عہدوں پر فائز افراد ہی دستور کے خلاف کام کر رہے ہیں اور دستور کے خلاف بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ دستور پر مباحث کے بعد دستور ہند کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے بھی مباحث چل رہے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ پر ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف کچھ منفی تبصرہ کرنے کے الزام عائد کئے گئے ہیں۔ اس پر پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر ارکان پارلیمنٹ میں دھکم پیل ہوئی ۔ قائد اپوزیشن راہول گاندھی پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ان ساری مباحث کے دوران دستوری عہدوں پر فائز افراد بھی دستور کے مغائر بیان بازیاں کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ اب اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ نے کل ایک بیان دیا کہ سناتن دھرم ہندوستان کا قومی مذہب ہے ۔ یہ تبصرہ دستور کے مغائر ہے کیونکہ دستور میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ ملک اور حکومت کا کوئی مذہب نہیںہے ۔ اسی لئے اس ملک کو سکیولر کہا جاتا ہے اور سکیولر قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہاں حکومت اور ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے ۔ مذہب اس ملک میں رہنے بسنے والے عوام کا ہے اور یہ ان کا اپنا شخصی اور انفرادی مسئلہ ہے ۔ ہر مذہب کو یہاں مساوی حق دیا گیا ہے ۔ہر مذہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق دئے گئے ہیں۔ مساوی مواقع دئے گئے ہیں اور کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ یا امتیازی سلوک کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔اس کے باوجود اگر دستوری عہدہ پر فائز افراد ہی اس طرح کی بیان بازی کرتے ہیں اور محض ایک مذہب کی تشہیر اور تبلیغ کرتے ہیں تو پھر یہ دستور کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس سے دستور کے ساتھ مذاق ہوتا ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات میں سچائی دکھائی دیتی ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں دستور میں تبدیلی کا منصوبہ رکھتی ہے ۔
ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ یہ اپنی آزادی کے بعد سے ہمیشہ ہی تمام مذاہب کا احترام کرنے والا ملک رہا ہے ۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب ساری دنیا کیلئے مثال رہی تھی ۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس گنگا جمنی تہذیب کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ بھید بھاؤ ہو رہا ہے ۔ ان کے خلاف انتقامی جذبہ سے کام کیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دینے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ اقلیتوں کے ووٹ ڈالنے کے حقوق چھیننے کی وکالت کی جا رہی ہے ۔ اقلیتوں کو اس ملک سے چلے جانے کو کہا جا رہا ہے ۔ کسی گوشے سے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی بات کی جا رہی ہے ۔ کسی گوشے سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کی منظم اور باضابطہ مہم شروع کردی گئی ہے ۔ ان ہی حالات میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر دستور بدلنے کے عزائم کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ جو حالات دکھائی دے رہے ہیں ان میں یہ الزام بے بنیاد بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ اب ملک کی سب سے بڑی ریاست کے چیف منسٹر کی جانب سے سناتن دھرم کو ہندوستان کا قومی مذہب قرار دیا جانا خود بھی دستور میں ملک کے غیرجانبدار رہنے کی جو بات ہے اس کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے ریمارکس کرنے والوں کے خلاف مرکزی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور ان کی نہ سرزنش کی جاتی ہے اور نہ ہی ان سے کسی طرح کی بازپرس کی جاتی ہے ۔ مرکز کے اسی رویہ سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت بھی اس طرح کی بیان بازیوں کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قوم کا موڈ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس کے مطابق منصوبے بنائے جاسکیں۔
اس ملک کے ایسے تمام عناصر اور گوشوں کو اس تعلق سے چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب دستوری عہدوں پر فائز افراد بھی من مانی بیانات دینے لگے ہیں اور دستور میں موجود گنجائشوں کے خلاف رائے کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس سے بعد میں مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے اور جو اندیشے دستور تبدیل کرنے کے تعلق سے ظاہر کئے جا رہے ہیں ان کو بھی ایسے بیانات سے تقویت ملتی ہے ۔ چاہے کوئی چیف منسٹر ہوں یا کسی اور عہدہ پر فائز ہوں سبھی کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ملک میںدستور اور قانون ہی سب سے افضل ہے اور کسی کی خواہش کی بنا ء پر نہ دستور میں تبدیل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو دستور کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت ہی دی جاسکتی ہے ۔
آر ایس ایس سربراہ کا بیان
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ملک میں مندر ۔ مسجد تنازعات پیدا کئے جانے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ مندر ۔ مسجد تنازعات پید اکرکے ہندووں کا لیڈر بن جائیگا تو وہ درست نہیں ہے ۔ موہن بھاگوت کا کہنا تھا کہ چونکہ ہندووں کے عقائد کا معاملہ تھا اس لئے ایودھیا میں رام مندر بنائی گئی اور دوسرے تنازعات کو ہوا دینے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ آر ایس ایس سربراہ کا یہ بیان خوش آئند کہا جاسکتا ہے تاہم انہیں صرف اس طرح کے بیانات پر اکتفاء کرنے کی بجائے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو یہ پیام دینا چاہئے کہ اس طرح کے تنازعات کو ہوا نہ دی جائے ۔ ایسا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے اور خود سنگھ بھی عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے ایسے تنازعات کو کالعدم قرار دینے کیلئے قانونی جدوجہد کا حصہ بن جائے ۔ اگر آر ایس ایس سربراہ کی جانب سے ایسا کچھ کیا جاتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائیگا ۔ محض بیان بازی سے مسئلہ کی یکسوئی کی امید کرنا فضول ہوگا ۔ عملی اقدامات کرتے ہوئے اپنے قول کو درست ثابت کرنا چاہئے ۔