ہندوستان کو خاموش مالیاتی بحران کا سامنا : وزیراعظم کے مشیر

,

   

نئی دہلی ۔ 22 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کو خاموش معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ ٹیکس کے مالیہ میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ سرکاری بجٹ سے اس کا ثبوت ملتا ہیکہ اس مسئلہ کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ وزیراعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کے ایک رکن رتن رائے کی خبر کے بموجب جو بجٹ جاریہ ماہ پیش کیا گیا وہ اس مسئلہ کی یکسوئی نہیں کرسکتا۔ بجٹ جاریہ مالی سال کیلئے ہے جس کا آغاز یکم ؍ اپریل سے ہوتا ہے۔ وزیرفینانس نرملا سیتارامن نے خسارہ بجٹ کی اہمیت کم کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو استعمال کی مصنوعات پر پہلے 3.4 فیصد ٹیکس عائد تھا جسے اب 3.3 فیصد کردیا گیا ہے حالانکہ معاشی فروغ کے احیاء کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دولتمند افراد پر عائد ٹیکس اور دیگر افرادپر عائد ٹیکس میں حائل خلیج کو دور کرنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے۔ سرکاری زیرانتظام کمپنیوں کے حصص فروخت کئے گئے ہیں اور سنٹرل بینک کو زیادہ نفع حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ بحران کا مرکز ٹیکس مالیہ میں کمی ہے۔ ڈائرکٹر قومی ادارہ برائے سرکاری مالیہ و پالیسی نئی دہلی نے کہا کہ ایسا خاص طور پر جی ایس ٹی مالیہ میں کمی کا نتیجہ ہے لیکن شخصی انکم ٹیکس کے مالیہ میں بھی کمی ہوئی ہے۔ بنسبت ترمیم شدہ تخمینوں میں جو اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں ان میں کمی آئی ہے۔ حکومت تخمینہ لگاتی ہیکہ 25.5 ٹریلین روپیوں کا بطور ٹیکس موجودہ مالی سال کے دوران اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کی دستاویز سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ تاہم معاشی سروے میں جو وزارت فینانس کی جانب سے علحدہ طور پر شائع کیا گیا ہے عبوری ٹیکس مالیہ 22.5 کھرب روپئے ہے۔ یہ تخمینہ 31 مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال کا ہے۔ رائے نے علحدہ طور پر حکومت کے 3.4 فیصد مالی خسارہ کے اعداد وشمار پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ گذشتہ مالی سال کے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالیہ ۔ جی ڈی پی کا تناسب 8.2 فیصد تھا جو مکمل فیصد پوائنٹ کم ہے جو گذشتہ تخمینوں کی بنسبت ہے۔ ایسا کس طرح کیا گیا اس سے حیرت انگیز کمی ٹیکس ۔ جی ڈی پی تناسب میں ظاہر ہوتی ہے۔ سیتارامن نے قبل ازیں بجٹ پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہر عدد مسلمہ حیثیت رکتھا ہے۔ اور اس بارے میں قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔