ہندوستان کی متنوع تہذیب کو خطرہ

   

رام پنیانی
جموں و کشمیر پر لاگو ہونے والی دستور کی خصوصی دفعہ370 کو بی جے پی حکومت نے منسوخ کردیا۔ اس منسوخی کا بڑے پیمانے پر جشن بھی منایا گیا اور ہر سال 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کی سالگرہ بھی منائی جارہی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کو ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ آیا حکومت کا یہ اقدام ہمارے دستور یا آئین کے عین مطابق ہے یا نہیں؟ حالیہ عرصہ کے دوران نفرت پر مبنی اشتعال انگیز تقاریر کے کچھ واقعات پیش آئے جیسے کہ نپور شرما نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی۔ اس پر مودی حکومت نے اُس وقت تک کارروائی نہیں کی، جب تک اسلامی ملکوں نے شدید ردعمل کا اظہار نہ کیا۔ اسلامی ملکوں نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی اور چن چن کر مسلمانوں کے مکان پر بلڈوزر چلائے جانے جیسے واقعات پر شدید برہمی ظاہر کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، آیا وہ ہمارے دستوری اقدار کے عین مطابق ہے؟ آئین کے اقدار کو گہرے جمود کا شکار بنا دینا اور جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور نشانہ نہ بنانا (جانبداری و تعصب کے باعث قصوروار کو نشانہ بنانے سے گریز اور بے قصور کو نشانہ بنایا جارہا ہے) اسے ہندوستان میں حکمرانی کرنے والی جماعت کے سیاسی نظریات کو سمجھے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس سلسلے میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے 2014ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایک ہندو قوم پرست ہیں، ایسے میں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ حکمراں بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا یہ ایجنڈہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر یا ہندو ملک میں تبدیل کیا جائے۔ آر ایس ایس کے نظریہ کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے کہ اس کے نظریہ کے مطابق ایجنڈہ کو قطعیت دی گئی ہے اور سنگھ کا ایجنڈہ ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ اس روشنی میں ہم موجودہ صورتحال یا کیفیت کو کیسے سمجھتے ہیں؟ اس طرح کی سیاست کے نظریہ ساز اب ہمیں موجودہ واقعات کی گہری وضاحتیں دے رہے ہیں، وہ ایک مہذب قوم کی بات کررہے ہیں، ایک ایسی قوم جس کی رہنمائی ایک مخصوص تہذیب کرتی ہے ملک کا قانون نہیں ، جو فی الوقت ’’ہوا‘‘ میں ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے وائس چانسلر سانتی شری دھولی پوڈی پنڈت نے 21 مئی کو بتایا کہ ہندوستان ایک مہذب یا تہذیب یافتہ ریاست ہے اور اسے دستور کے پابند ایک شہری ریاست تک محدود نہیں کیا جانا چاہئے۔ جے این یو کی چانسلر کے مطابق ہندوستان کو ایک آئین کے پابند شہری ملک میں تبدیل کرنا اس کی تاریخ، قدیم ورثے، ثقافت اور تہذیب کو نظرانداز کرتا ہے۔ میں ہندوستان کو ایک تہذیبی ریاست کے طور پر دیکھوں گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم تہذیب کی تعریف و تشریح کیسے کریں گے۔ اگر قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والوں کی جانب سے اختیار کئے جانے والے رویہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی نظر میں ہندوازم میں ہندوستان کی اہم ترین تہذیب ہے۔ یہ طاقتیں بائیں بازو کی جماعتوں یعنی کمیونسٹ جماعتوں کی نظریات کی تائید و حمایت کرنے والے مورخین پر الزام عائد کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے اسلام بالخصوص مسلمانوں اور اس میں خصوصاً مغلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے تاریخ کی تشریح توڑ مروڑ کر کی ہے۔ انہیں اس بات کی بہت زیادہ تکلیف ہے کہ سرزمین ہند پر حکومت کرچکے ہندو راجاوں جیسے سلطنت چولا کو ہماری قومی نصاب، قومی تاریخ میں اچھی طرح پیش نہیں کیا گیا جبکہ مغل جیسے بیرونی حملوں آوروں کو یہ ہندوستان کی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ ان کی یہ بھی شکایت ہے کہ ہندو راجاؤں کی شجاعت و بہادری، ان کی فتوحات، ان کی تجارتی پالیسیوں، صنعت و حرفت کے شعبوں میں ان کی خدمات پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا گیا۔
ہندو راجاؤں بمقابلہ مسلم بادشاہوں کی کہانیوں میں اس بنیادی مسئلہ کو فراموش کردیا گیا کہ ہندو راجہ آمریت کے حامل تھے اور بادشاہ (تمام مذاہب کے ماننے والے بادشاہوں) کی افواج نے لوٹ مار مچائی۔ ہندو راجاؤں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان لوگوں نے بھی لوٹ مار مچائی اور اپنے مفادات کی تکمیل کی۔ مثال کے طور پر جولاس سلطنت کے راجاؤں نے سری لنکا پر حملہ کیا، لوٹ مار مچائی اور ہزاروں کی تعداد میں وہاں سے لوگوں کو غلام بناکر لایا۔ ایسے میں کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ چولاس نے جن لوگوں کو غلام بنایا، وہ پرامن طریقے سے بنایا گیا، ہاں ہندوتوا کے یہ نظریہ ساز چاہتے ہیں کہ ہم ان کی باتوں، دعوؤں پر یقین کریں۔ تاریخ میں بدھسٹ راجہ اشوکا کو کون نہیں جانتا جس نے بہت زیادہ عوام کی بہبود کا کام کیا۔ مغل بادشاہ اکبر اعظم کی اچھائیوں، اچھے کاموں سے متعلق قصے کہانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اکبر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی یا صلح کل میں یقین رکھتا تھا۔ وہیں پشپا مترا شنگ جیسا حکمراں بھی تھا (اس نے موریہ سلطنت کو ختم کرکے سلطنت شنگا کی بنیاد ڈالی تھی) جس نے بے شمار بدھ وہاروں کو تباہ و برباد کیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہندو راجاؤں کو ہی ہندوستانی تہذیب کے نمائندوں کی حیثیت سے چن سکتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی مختلف تہذیبوں اور مذاہب کی نمائندگی اور ماننے والوں کا ملک رہا ہے اور اس ملک کی سرزمین پر مختلف تہذیبوں اور مذاہب کو مساویانہ طور پر فروغ حاصل ہوا یا فروغ کے مواقع ملے، اس سلسلے میں ہم صرف ایک اہم مثال پیش کرتے ہیں۔ اسلام سے تعلق رکھنے والے صوفیوں اور ہندوازم سے تعلق رکھنے والے بھکتی سنتوں دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ محبت مذہب کا اہم حصہ ہوتاہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے محبت اور آپسی بھائی چارے کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان تہذیب یافتہ قوم کے نظریات کے برخلاف مجاہدین آزادی نے ہندوستانی تاریخ کو مشمولیاتی تاریخ کی حیثیت سے دیکھا اور ایک دوسرے کو اپنایا، پرامن بقائے باہم کے نظریہ پر ان تمام کا ایقان تھا۔
مہاتما گاندھی خود لکھتے ہیں، ہندوؤں کو مسلم حکومتوں اور مسلمانوں کو ہندو راجاؤں کی حکومتوں میں فروغ حاصل ہوا لیکن انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی آپسی جھگڑوں کا آغاز ہوا۔ کیا ہم نے یہ فراموش کردیا ہے کہ بے شمار ہندوؤں اور مسلمانوں کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں اور ان کی رگوں میں ایک ہی طرح کا خون دوڑ رہا ہے؟
مہاتما گاندھی کے چیلے اور عقیدت مند پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ کے ذریعہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں مذہبی تنوع یعنی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جو اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے، وہ ہماری یعنی ہندوستان کی متنوع تہذیب کی ایک روشن مثال ہے۔ ہندوستان کے بارے میں پنڈت جواہر لال نہرو لکھتے ہیں۔ ہندوستان ایسے مسودہ کے مانند تھا تہذیب جس کی تہہ پر تہہ پرتوں پر لکھی ہوئی تھی اور بعد میں آنے والی پرت نے پہلی پرتوں پر موجود تحریر کو چھپایا تھا، مٹایا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ہمارے عوام میں تنوع بلکہ لامحدود تنوع موجود تھا، ہر جگہ یگانگت کا وہ زبردست تاثر تھا، جس نے ہم تمام کو صدیوں سے متحد اور اکٹھا رکھا ۔ ہم نے ہر سیاسی خوش بختی اور بدقسمتی کا متحدہ طور پر مقابلہ کیا۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کا اتحاد میرے لئے ایک جذباتی تجربہ تھا لیکن موجودہ حالات میں اگر ہم دیکھتے ہیں تو جو لوگ نئے یا جدید ہندوستان کی باتیں کرتے ہیں اور نئے ابھرتے ہندوستان کے اقدار کا تحفظ کرنے والے گروہوں کی حیثیت سے خود کو پیش کرتے ہیں اور جنہوں نے خود کو ملک کی جدوجہد آزادی سے دُور رکھا تھا، وہی لوگ اب قدیم ہندو تاریخ کی شان و شوکت کی باتیں کررہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بیرونی باشندے قرار دے رہے ہیں۔ برہمن ہندوازم کے نظریہ ساز اور اس کی وکالت کرنے والے ایم ایس گولوالکر نے بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ قوم یا ملک صرف سیاسی و اقتصادی حقوق کا بنڈل نہیں ہوتا بلکہ وہ تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے اور ہندوستان میں یہ تہذیب یا کلچر قدیم اور شاندار ہندوازم ہے جو محبت سے پر اور کسی بھی جذبہ کے ردعمل سے پاک ہے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے بالکل درست کہا تھا کہ ہندوازم میں برہمن ازم کی اجارہ داری ہے۔ دوسری طرف ڈی وی ساورکر نے ہندوتوا کی بنیاد ڈالی اور یہ کہا کہ ہندوتوا صرف ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل ہندوپنت ہے اوراس کے مطابق یہ آریائی نسل پر مبنی ہے۔ دریائے سندھ سے لے کر سمندروں تک برہمن تہذیب پائی جاتی تھی۔