ہندوستان اور کناڈا کے درمیان سفارتی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور اس میںاضافہ کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ جس وقت ہندوستان میںجی 20 چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس وقت اس طرح کی کشیدگی کا کوئی شائبہ تک دکھائی نہیںدے رہا تھا ۔ تاہم وزیر اعظم کناڈا جسٹن ٹروڈو نے اپنے ملک واپس ہونے کے بعد ہندوستان کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے اس نے سارے معاملہ کو الگ ہی نوعیت دیدی ہے اور دونوںملکوں کے مابین شائد پہلی مرتبہ سفارتی کشیدگی پیدا ہونے لگی ہے ۔ ہندوستان کی ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ کناڈا کو اکثر و بیشتر مخالف ہند اور موافق خالصتانی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ کناڈا میںمخالف ہند اور موافق خالصتانی سرگرمیاں اکثر وبیشتر دکھائی دیتی ہے اور ہندوستان کی ہمیشہ سے شکایت بھی کرتا رہا ہے ۔ اس کے باوجود کناڈا میں ان سرگرمیوںکی روک تھام کیلئے اور مخالف ہند عناصر کی سرکوبی کیلئے کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاتی ۔ اس طرح کی صورتحال میںہندوستان نے ہمیشہ ہی انتہائی صبر و تحمل سے کام لیا ہے ۔ سفارتی کوششوں پر اکتفاء کرتے ہوئے کناڈا کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے میں اگر کناڈا کی جانب سے ہندوستان کے خلاف ترش اور نامناسب ریمارکس کئے جاتے ہیںتو یہ سفارتی تعلقات کیلئے اچھی علامت نہیںہوسکتی ۔ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ جی 20 کانفرنس کے موقع پر ہندوستان کی حکومت اور خود راست وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک کناڈا شہری کے قتل کے سلسلہ میں بات کرچکے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ہندوستان کے ایجنٹس نے کناڈا کے شہری ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کروایا ہے ۔ یہ الزام عائد کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس بات کے شواہد اور ثبوت فراہم ضرور کئے جانے چاہئیں۔ یہ الزام کوئی عام شہری نہیںلگارہا ہے بلکہ کناڈا جیسے وسیع و عریض ملک کے وزیر اعظم عائد کر رہے ہیں تو ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے الزام کی تائید میںثبوت و شواہد بھی حوالے کریں۔ محض الزام تراشی کے ذریعہ کام نہیںچلایا جاسکتا اور ایسا کرنے سے ہر ذمہ دار فرد کو گریز ہی کرنے کی ضرورت ہے ۔
جسٹن ٹروڈو نے اگر حکومت ہند کے ذمہ داروں اور خود وزیر اعظم کو اس معاملہ پر توجہ دلائی ہے تو انہیں حکومت کے باضابطہ جواب کا بھی انتظار کرناچاہئے تھا ۔ اپنے ملک واپس ہونے کے بعد اس طرح کی بیان بازی کرنے کی انہیںقطعی ضرورت نہیں تھی ۔ ہندوستان کے شدید رد عمل کے بعد ان کی وضاحت بھی آئی ہے کہ وہ ہندوستان کو اشتعال دلانا نہیںچاہتے بلکہ صرف جواب چاہتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کناڈا کی سرزمین پر کوئی واردات ہوتی ہے تو اس کا جواب حکومت ہند کو نہیںبلکہ خود کناڈا کی حکومت کو دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کناڈا میںکسی کے قتل یا کسی پر حملہ یا کوئی اور خلاف قانون واردات کی ذمہ داری ٹروڈو حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ اس پر ہندوستان سے جواب طلب کرنا مناسب نہیںہے ۔ ساتھ ہی دنیا میں کسی بھی ملک کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کناڈا کی سرزمین سے مخالف ہند سرگرمیاںچلائی جاتی ہیں۔ اشتعال انگیز بیانات دئے جاتے ہیں۔ جو عناصر ایسا کرتے ہیںان کو کناڈا میں پناہ ملی ہوئی ہے ۔ چاہے وہ شہریت کی شکل میں ہو یا پھر کسی اور طرح سے ہو ۔ وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف ہند سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ کناڈا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوںکی روک تھام کرے ۔ کسی کی سرگرمیوںسے دو ملکوںکے سفارتی تعلقات متاثر نہیںہونے چاہئیں۔
دنیا کے کوئی بھی دو ممالک اگر آپسی سفارتی تعلقات رکھتے ہیںتو یہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہوتا ہے ۔ باہمی مفادات کے علاوہ عالمی امور میں بھی ان کی اہمیت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے دنیا کے حالات کو بہتر بنانے کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ کناڈا یقینی طور پر اپنے شہریوں کی حفاظت اور ان کی بہتری کا ذمہ دار ہے اور پابند بھی ہے لیکن ساتھ ہی بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کو یہ بھی یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کا موقع نہ دیا جائے ۔ کناڈا کو اپنے تیور اور موقف پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ باہمی تعلقات متاثر ہونے نہ پائیں۔