ہیلت ایمرجنسی ضروری

   

Ferty9 Clinic

مہرباں ہوکے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ہیلت ایمرجنسی ضروری
کورونا کا قہر ایسا لگتا ہے کہ اب سارے ملک میں حقیقی معنوں میں قیامت ڈھانے لگا ہے ۔ ہر طرف نفسا نفسی اور افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ لوگ کورونا سے متاثر ہوکر دواخانوں کا رخ کر رہے ہیں اور دواخانوں میں ایسا لگتا ہے کہ وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ تقریبا سارے ملک میں آکسیجن کی قلت پیدا ہوگئی ہے ۔ حکومتیں آکسیجن بروقت اور درکار حد تک فراہم کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہوگئی ہیں۔ دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں حکومتوںکا خود کہنا ہے کہ ان کے پاس صرف چند گھنٹوں کی آکسیجن باقی رہ گئی ہے ۔ وینٹیلیٹرس کا حالت بھی انتہائی سنگین ہوگئی ہے ۔ ویکسین کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ لوگ انتہائی تیزی کے ساتھ اس مہلک وائرس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اموات کی شرح بھی بے تحاشہ بڑھ گئی ہے ۔ لوگ اچانک ہی موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔ اس میں نوجوان زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جس حد تک احتیاط ممکن ہوسکتی ہے کی جا رہی ہے اس کے باوجود کورونا انفیکشن بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ ڈاکٹرس کا بھی کہنا ہے کہ یہ وائرس اب زیادہ مہلک اور زیادہ خطرناک ہوگیا ہے ۔ عوام کو حقیقی معنوں میں اس کے قہر و عتاب کا اب سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومتیں بالکل بے بس نظر آ رہی ہیں۔ صحت سے متعلق ہمارا انفرا اسٹرکچر پوری طرح سے ناکام ہوگیا ہے ۔ بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور ان دعووں کی قلعی کھل گئی ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے ملک میں ہیلت ایمرجنسی نافذ کردی جائے ۔ تمام دوسری سرکاری سرگرمیوں کو بند کردیا جائے ۔ جہاں کہیں انتخابات ہو رہے ہیں انہیں فوری یا تو مکمل کرلیا جائے یا پھر انہیں روک دیا جائے ۔ حکومتوں کی ساری کی ساری توجہ صرف کورونا سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ صحت انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو وقت طلب کام ہے ۔ فی الحال عوام کو ممکنہ حد تک راحت پہونچانے اور انہیں اس وائرس سے بچانے کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی اور جنگی خطوط پر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
حکومتوں کی نا اہلی کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ملک کی عدالتیں عوامی صحت سے متعلق اس انتہائی سنگین اور حساس مسئلہ پر احکام جاری کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ عدالتوںکی جانب سے حکومتوں کی سرزنش ہو رہی ہے کہ وہ عوامی صحت سے کھلواڑ کیوں کر رہی ہیں۔ حکومتوں کے اقدامات کو عدالتیں بھی ناکافی قرار دے رہی ہیں۔ حکومتیں صرف اپنے کام کاج پر توجہ دینے میں مصروف ہیں۔ ساری توجہ صحت پر کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اب جبکہ سارا ملک اس مہلک وائرس کی زد میں آچکا ہے اور نفسا نفسی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے کم از کم اب حکومتوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ۔ جو واقعات پیش آر ہے وہ دل دہلادینے والے ہیں۔ لوگ اپنے رشتہ داروں کی آخری رسومات میں تک شرکت نہیں کر پا رہے ہیں۔ اولاد اپنے ماں باپ کی نعشوں کو شمشان میں چھوڑ کر فرار ہو رہی ہے ۔ مریضوں کو گھروں میں داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے ۔ گاوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ ایسے میں ایک سرکاری حکمت عملی اور منصوبہ کی ضرورت ہے جس کے تحت انتہائی سنگین ترین حالات میں بھی عوام کی مدد ممکن ہوسکے اور انہیں اس مہلک وباء اور اس کے اثرات سے ممکنہ حد تک راحت پہونچائی جاسکے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتیں اس وائرس کی سنگینی کو اور اس کے اثرات کو سمجھیں اور حقیقی معنوں میں عوام کی مدد کیلئے تیار ہوجائیں۔ محض دکھاوے کے اور علامتی اقدامات سے صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں رہ جائے گا ۔
اب جبکہ صورتحال ہر کسی کے قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے کم از کم اب اگر حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض عوام کی بہتری اور راحت کیلئے اقدامات کرنے تیار ہوجائیں تو زیادہ نقصان سے بچا جاسکتا ہے ۔ عوام کوا س مہلک وائرس کے اثر سے بچایا جاسکتا ہے ۔ عوام میں ایک طرح کا اعتماد بحال کرنے کی بھی ضرورت ہے جو صرف حکومت کے اقدامات سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔ صرف کسی پروٹوکول کا اعلان کرتے ہوئے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اس کی تکمیل کیلئے مرکزی حکومت ہو یا ملک کی تمام ریاستوں کی حکومتیں ہوں سبھی کو کمر کس لینی چاہئے ۔