گورکھپور بچوں کی موت کا معاملہ۔ اٹھ ماہ بعد اس کو جیل ہوگئی تھی‘ ڈاکٹر کفیل خان کو اپریل2018میں آلہ اباد ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیاتھا‘ ساتھ میں عدالت نے کہاتھا کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیاہے
لکھنو۔ اترپردیش کے گورکھپور میں آکسیجن کی کمی کے سبب 60بچوں کی موت کے معاملے میں ایک سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر جس کو برطرف کرنے کے بعد مبینہ طور پر مذکورہ اموات میں رول کے الزام کے ساتھ جیل میں بند کردیاتھا‘
واقعہ کے دوسال بعد ریاستی حکومت کی ایک رپورٹ میں ان پر لگے تمام الزامات کو صاف کردیاہے۔ ڈاکٹر کفیل خان نے یوگی ادتیہ ناتھ حکومت سے معافی کا مطالبہ کیاہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کو اگست2017میں بی آر ڈی میڈکل کالج میں ماہر اطفال کی حیثیت سے تعینات کیاگیاتھا جہاں پر محض دونوں میں 63بچوں کی 10اور 11اگست کے روز موت ہوگئی‘
مبینہ طور پر اکسیجن کی سپلائی بچوں کے وارڈ میں روک دی گئی تھی جس میں سی سی یو وارڈ بھی شامل تھا
۔اب15صفحات پر مشتمل حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ ڈاکٹر کفیل خان کو جمعرات کے روز حوالے کی گئی جس میں ہائی کورٹ کی بھی حمایت شامل ہے۔
مذکورہ رپورٹ ریاستی حکومت کو اپریل2019میں ہیمانشوکمار نے داخل کی ہے جو ایک سینئر ائی اے ایس افیسر ہیں جو ڈاکٹر خان کے خلاف لگے الزامات کی جانچ کررہے تھے۔
کلین چٹ ملنے کے بعد ڈاکٹر خان نے این ڈی ٹی وی سے بتایا کہ”مشہور قاتل کا الزام ڈاکٹر کفیل خان کے اوپر سے اب ہٹ گیا ہے“۔
بڑے پیمانے پر احتجاج اور چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ اپنے آبائی مقام گورکھپور کے دورے کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کو برطرف کردیاگیاتھا۔ وہیں اترپردیش حکومت نے بھی انہیں برطرف کرتے ہوئے کہا کہ وہ موثر اقدامات اٹھانے میں وہ ناکام رہے‘
حالانکہ وہ تمام چیزوں سے واقف تھے۔ حکومت نے اس بات کا بھی دعوی کیاتھا کہ ڈاکٹر خان اسپتال کے حساس دماغی بخار کے وارڈ میں نوڈل افیسر او رانچارج بھی تھے اور وہ کسی بھی قسم کی قلت کے متعلق واقف تھے۔
ہرسال ہزاروں کی تعداد میں بچے گورکھپور اسپتال کے دماغی بخار کے وارڈ میں داخل کئے جاتے ہیں۔بعدازاں ایک ایف ائی آر نو لوگوں کے خلاف جس میں ڈاکٹر کفیل خان بھی شامل ہیں اور سابق پرنسپل کالج کے نام پر درج کردی گئی۔
ستمبر2سال2017کے روزڈاکٹر خان کو یوپی پولیس نے گرفتار کرلیا اور جیل بھیج دیا۔جیل بھیجے جانے کے اٹھ ماہ بعد اٹھ ماہ بعد اس کو جیل ہوگئی تھی‘
ڈاکٹر کفیل خان کو اپریل2018میں آلہ اباد ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیاتھا‘ ساتھ میں عدالت نے کہاتھا کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیاہے
ڈاکٹر خان نے این ڈی ٹی وی سے کہاکہ ”مجھے بچوں کے ساتھ وقت گذارنے میں بہت محبت ہے۔ میری بیٹی د س ماہ کی تھی جب میں مجھے اٹھاکر لے گئے تھے۔
جب میں واپس آیا وہ مجھے پہچان نہیں رہی تھی“۔انہوں نے مزیدکہاکہ ”آج بھی اگر مجھے ایک بچہ بچانا پڑے تو میں یہ دوبارہ کروں گا“۔
Those parents who lost their infants are still waiting for the justice.I demand that government should apologize and give compensation to the victim families.@PTI_News @TimesNow @myogiadityanath @narendramodi @ndtv @ravishndtv @abhisar_sharma @yadavakhilesh @RahulGandhi @UN pic.twitter.com/WaTwQSCUuZ
— Dr Kafeel Khan (@drkafeelkhan) September 27, 2019
مذکورہ رپورٹ میں یہ با ت سامنے ائی ہے کہ ڈاکٹر خان نے کوئی طبی کوتاہی نہیں برتی ہے‘ وہ اکسیجن کی سربراہی کے ٹنڈر معاملے میں کسی بھی طریقے سے ملوث نہیں ہیں‘ وہ اس اسوسیشن بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں۔یوپی حکومت نے اب تک اس پر کوئی ردعمل پیش نہیں کیاہے۔