یوپی وقف املاک میں تحقیقات سے کیڑے باہر آسکتے ہیں

,

   

اس میں سفارش کی گئی ہے کہ اترپردیش وقف بور ڈ کو فوری تحلیل کردیاجائے اور تمام ملزم عہدیداروں کو تحقیقات کی تکمیل تک وقف دفاتر میں داخل ہونے نہیں دیاجائے۔


لکھنو۔اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کی جانب سے وقف املاک میں تحقیقات کے احکامات‘کیڑوں سے بھرے ڈبے کو کھولنے جیسا ہوگا اوراس سے کافی سیاسی کھلبلی پیدا ہونے کا امکان ہے۔

مذکورہ سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور اے ائی ایم ائی ایم نے پہلے ہی اس فیصلے کی مخالفت کی او رکہا ہے کہ یہ ایک کمیونٹی کو منظم انداز میں نشانہ بنانا ہے۔تاہم شیعہ اور سنی علماؤں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیاہے حالانکہ اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ایس پی کے ایک لیڈر کا ماننا ہے کہ یوگی حکومت کا فیصلہ اس کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان کو منظم نشانہ بنانا ہے۔


انہوں نے کہاکہ ”وقف املاک کی پہلے ہی سی بی ائی جانچ کررہی ہے تو پھر اس سروے کی کہاں ضرورت ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ اقدام اعظم خان کوفرضی معاملات میں پھنسانے کی سازش ہے“۔

ایس پی حکومت میں ایک سینئر وزیر ہونے کی حیثیت سے اعظم خان نے وقف بورڈس سے کافی طاقت حاصل کی ہے۔ان کے سابق قریبی وسیم رضوی جو اس وقت شیعہ وقف بورڈ کا چیرمن تھا‘ کہاجاتا ہے کہ وہ اس وقت میں بڑی جائیدادوں کے لین دین میں ملوث تھا۔

ایسا کہاجاتا ہے کہ کلیدی جائیدادیں غیرقانونی طریقے سے سیاسی طاقت رکھنے والے لوگوں کومنتقل کی گئیں جس کاانہوں نے معاشی مقاصد کے لئے استعمال کیاہے۔ لکھنو کے ایک سینئر عالم دین کاکہنا ہے کہ ”قانون کے شکنجے سے بچنے کے لئے ہی رضوی راتوں رات بی جے پی کا حمایتی بن گیا اور ہندوازم اختیار کرلیااور اپنا نام جتیندر تیاگی رکھ لیاتھااورتب سے وہ اپنے زعفرانی لباس کا سہارا لے کرزندگی گذاررہا ہے“۔

مذکورہ سنی سنٹرل وقف بورڈ کی 1.5لاکھ جائیدادیں ریاست بھر میں ہیں وہیں مذکورہ شیعہ وقف بور ڈ کی اپنی12000جائیدادں ریاست بھر میں ہیں۔ اقلیتی امور کے سابق ریاستی وزیر محسن رضا نے کہاکہ ”کانگریس‘ ایس پی اور بی ایس پی نے بڑے پیمانے پر وقف جائیدادو ں کی لوٹ مار کی ہیں۔

یوگی حکومت کی جانب سے تحقیقات کے احکامات وقف بورڈ میں اپنے اقتدار کا بیجا استعما ل کرنے والوں کے چہروں کو بے نقاب کریگا“۔ یوگی حکومت کی جانب سے ہٹائے گئے 1989کیااحکامات میں کانگریس کی کی حکومت میں چیف منسٹر نارائن دت تیواری کی حکومت نے جاری کئے تھے۔

غیر کاشت اور بنجر اراضیات کو غیر قانونی طریقے سے وقف املاک میں رجسٹریشن کے بعداستعمال کیاجارہا ہے۔ صرف وہی جائیداد وقف کے زمرے میں آتی ہیں جومذہبی یافلاحی کاموں کے لئے عطیہ دی گئی ہیں۔

ریاستی حکومت نے تمام ڈویثرنل کمشنروں‘ ضلع مجسٹریٹوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ وقف بورڈ کی فہرست میں شامل تمام سرکاری املاک کی جانچ کریں۔ وہ وقف جائیدادیں جو 7اپریل1989کے بعد راجسٹرٹ کی گئی ہیں وہ تمام معاملات کی دوبارہ جانچ کریں۔

اس اقدام کا مقصد وقف بورڈ کے طور پر فہرست میں شامل ہونے کے بعد کسی بھی سرکاری اراضی کو قبضہ سے بچانے کی کوشش ہے۔سال 2017میں اقتدار میں آنے کے فوری بعد یوگی حکوت نے شیعہ او رسنی وقف بورڈ کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحلیل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔