سندھیا رمیش
متحدہ عرب امارات نے 20 جولائی کو ملک کا پہلا مریخ مشن ’’ ہوپ مشن‘‘ بڑی ہی کامیابی سے سرخ سیارہ مریخ کی جانب روانہ کردیا۔ متحدہ عرب امارات کا یہ مریخ مشن ہوپ (جسے اردو میں امید اور عربی میں امل کہتے ہیں) نامی آربیٹر پرمشتمل ہے۔ یہ مشن مریخ کی فضاء یعنی آب و ہوا اور موسم کا جائزہ لے گا۔
آپ کو بتادیں کہ ہوپ کی تیاری محمد بن راشد خلائی سنٹر میں یونیورسٹی آف کولارائیڈو، اریزونا ایسٹ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے تعاون و اشتراک سے عمل میں آئی۔
مریخ مشن جاپان کے تانیگا شیما خلائی مرکز سے جاپان کے مقامی وقت صبح 6 بج کر 58 منٹ پر روانہ کی گئی اور توقع ہے کہ فروری 2021 میں یہ مریخ پہنچ جائے گا۔ مریخ پر اس کی آمد متحدہ عرب امارات کے قیام کی پچاس ویں سالگرہ کے موقع پر ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مشن کا منصوبہ اسرو کی مدد سے بنایا گیا اور اس کی مدد سے عمل آوری کی گئی۔
مشن کے مقاصد
د امل یا ہوپ خلائی گاڑی چھ رخی
Hegxagon
ہے اور اس کا وزن 1350 کیلو گرام یعنی 1.3 ٹن ہے اس کا حجم یا سائز ایک Suv کے سائز کے برابر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہوپ آربیٹر فی الوقت زمین کے اطراف چکر لگارہا ہے جس کے فوری بعد وہ مریخ کی جانب روان دواں ہو جائے گا اپنی منزل مقصود پہنچ کر یہ خلائی گاڑی مریخ کے اطراف فضاء کا جائزہ لے گی موسم کے بارے میں تحقیق کرے گی اس کے موسمی نقشہ کا تجزیہ کرے گی۔ اس مشن کے مقاصد کے بارے میں جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق یہ مشن مریخ کی فضاء میں توانائی کی منتقلی سے متعلق معلومات حاصل کرے گااور یہ پیمائش سال کے تمام موسموں اور دن کے تمام اوقات میں کی جائے گی امل آربیٹر مریخ پر موجود مٹی کا بھی جائزہ لے گی کیونکہ یہ مٹی مریخ کے درجہ حرارت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ہوپ مشن کے ذریعہ مریخ کی فضاء کے اوپر موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹمس کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ گیس کس طرح خلاء میں پہنچ جاتی ہیں ہوپ مشن ایک تھرمل انفراریڈ اسپیکٹومیٹر پر مشتمل ہے جو مریخ کے زیریں فضاء اور اس کے درجہ حرارت کے میلان کا جائزہ بھی لے گا۔ اس میں ایک طاقتور کیمرہ
High Resolution Camera
بھی موجود ہے جو پانی، برف اور دھول کے ذرات کی تصاویر کو اپنے میں قید کرے گا یووی بیانڈس اور یووی اسپیکٹومیٹر فضاء میں گیس کے ارتکاز کی پیمائش کریں گے۔ واضح رہے کہ اس مشن کا منصوبہ دو سال کے لئے بنایا گیا ہے۔
جہاں تک محمد بن راشد اسپیس سنٹر
(MBRSC)
کا سوال ہے اس نے تاحال تین سٹیلائٹس دوبئی سپاٹ۔ 1 اور 2 اور خلیفہ سپاٹ لانچ کئے ہیں ساتھ ہی کیوب سپاٹ، نائف 1 بھی لانچ کرنے کا اس سنٹرس کو اعزاز حاصل ہے۔ نائف ۔ 1 پی ایس ایل وی کے تاریخی 104 سٹیلائٹس کی لانچنگ کے موقع پر
PSLV
کے ذریعہ لانچ کیا گیا یہ تاریخی لانچنگ 2017 میں عمل میں آئی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ مریخ مشن کا 2014 میں اعلان کیا گیا تھا اور اس کا نام شہریوں کی جانب سے پیش کیا گیا اور ووٹنگ کے ذریعہ مشن کے نام کا انتخاب کیا گیا اس پراجکٹ کی قیادت عمران شریف کررہے ہیں اور سائنسی محقق اعلیٰ سارہ عامری ہیں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس مشن کے 9 اہم ترین قائدین میں تین خواتین ہیں۔ ہوپ کی سائنسی ٹیم کی سربراہ سارہ العامری متحدہ عرب امارات کی وزیر سائنسی ترقی بھی ہیں۔ سارہ محمد بن راشد اسپیس سنٹر سے سافٹ ویر انجینئر کی حیثیت سے وابستہ ہوئی تھیں۔ ہوپ پر کام کرنے والوں میں سے 34 فیصد خواتین ہیں۔ سارہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس اس مشن کی قیادت کرنے والی ٹیم میں بھی صنفی مساوات ہے۔ سارہ نے لانچ سائٹ سے دوبئی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ متحدہ عرب امارات کا مستقبل ہے۔
یہ سٹلائٹ متحدہ عرب امارات کے ان کئی ایک منصوبوں میں سے ایک ہے جن کا مقصد ملک کی معیشت کا انحصار تیل اور گیس پر سے کم سے کم کرکے اسے سائنس و ٹکنالوجی پر مبنی معیشت بنانا ہے۔ اس وجہ سے یو اے ای خلائی سائنس میں اپنے منصوبوں سروے کو وسعت دے رہا ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال ستمبر میں حزہ المنصوری خلاء میں پہنچے تھے۔ وہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے تین رکنی عملہ کا حصہ تھے انہیں اس ٹیم میں شامل ہونے والے پہلے عرب محقق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
متحدہ عرب امارات نے 2117 تک مریخ پر انسانی کالونی کی تعمیر کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ سائنس خاص کر خلائی شعبہ میں تربیت و تحقیق کا سلسلہ جاری رہے۔ یو اے ای دوبئی کے صحرا میں ایک سائنس سٹی قائم کرنے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے۔ جہاں مریخ کے حالات جسے حالات مصنوعی طور پر پیدا کئے جائیں گے متحدہ عرب امارات نے اب خلائی سیاحت کو فروغ دینے پر پوری توجہ مرکوز کی ہے اور اس ضمن میں رچرڈ برانسن کے درجن گیلک ٹک کے ساتھ یادداشت مفاہمت پر دستخط بھی کئے جو مستقبل کے خلائی سیاحوں کے لئے
Suborbital flights
تیار کررہا ہے۔