یو پی اے ۔3 ممکن ؟

   

کب امن ہوگا یہ تو خدا ہی کو علم ہے
سرحد پہ ہیں کھڑے ہوئے لشکر یہاں وہاں
راجیہ سبھا کے رکن و سابق کانگریس لیڈر کپل سبل نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اگر بی جے پی سے مقابلہ کیلئے تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوجاتی ہیں اور نشستوں کی تقسیم میںاٹل اور ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرنے کی بجائے لو اور دو کی پالیسی پر عمل کرتی ہیں تو پھر آئندہ عام انتخابات کے بعد ملک میں یو پی اے ۔ 3 کی حکومت ممکن ہوسکتی ہے ۔ کپل سبل ایک سینئر لیڈر ہیں اور وسیع تجربہ کے بھی حامل ہیں ۔ وہ سپریم کورٹ کے معروف وکلاء میں شمار کئے جاتے ہیں اور حالیہ عرصہ میں وہ کانگریس سے دوری اختیار کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔ جس طرح سے کپل سبل نے یو پی اے اتحاد کے برسر اقتدار آنے کی امید کا اظہار کیا ہے اسی طرح کچھ گوشوں کی جانب سے بھی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں ۔ سبھی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو اس کام کیلئے آپس میں اتحاد کرنے کی ضرورت ہے اور سخت گیر موقف اختیار کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اپنی طاقت کے مطابق اور کامیابی کے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار جو چند ماہ سے اپوزیشن اتحاد کیلئے سرگرم ہیں وہ بھی مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کے خلاف اپوزیشن متحد ہوتی ہے اور ہر حلقہ میں بی جے پی کے خلاف صرف ایک امیدوار میدان میں اتارا جاتا ہے تو اس سے بی جے پی کو شکست دینے کے امکانات میں اضافہ ہوجائیگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ہندوستان کی سب سے طاقتور جماعت بی جے پی ہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں اس کی حکومتیں قائم ہیں۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اس کے ارکان کی تعداد خاطر خواہ ہے ۔ اس سب کے باوجود دو مثالیں یہ بھی موجود ہیں کہ منظم انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کو شکست دی گئی ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی نے بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کے خواب سے دور کردیا ہے اور شاندار کامیابی حاصل کی تو کانگریس نے بی جے پی کو کرناٹک میں اقتدار سے بیدخل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ ان مثالوں سے اپوزیشن کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور وہ اتحاد کیلئے کوشاں ہے۔
تاہم جس طرح کپل سبل نے کہا ہے 2024 میں اپوزیشن کی کامیابی آسان نہیں ہوسکتی ۔ بی جے پی کو شکست دینا ناممکن تو نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں مشکل ضرور ہوسکتا ہے اگر اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد نہ پیدا ہوجائے ۔ کپل سبل کا یہ بھی کہنا اہمیت کا حامل ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر اتحاد کرتی ہیں تو انہیں اقل ترین مشترکہ پروگرام کی بجائے ہندوستان کیلئے ایک نئے ویژن کو پیش کرنا ہوگا ۔ عوام میں ایک بہتر اور موثر ویژن پیش کرتے ہوئے خود کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر منوایا جاسکتا ہے ۔ تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے ۔ اس کیلئے بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر جماعت کو کچھ نہ کچھ قربانی دینے کیلئے تیار رہنا پڑیگا ۔ اگر اٹل اور بے لچک موقف اختیار کیا جاتا ہے تو پھر اس صورتحال کا بی جے پی فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔ ہر جماعت کو اپنی اصل طاقت کو سمجھنے اور اس کے مطابق مقابلہ کی تیاری کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ محض بلند بانگ دعووں کیلئے زیادہ نشستیں طلب کرنا اور ان پر مقابلہ کرتے ہوئے شکست سے دوچار ہوجانا اپوزیشن اتحاد کے حق میں بہتر نہیں ہوگا ۔ ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام ہو یا ملک کیلئے ایک موثر ویژن پیش کرنا ہو ان امکانات کا سنجیدگی اور باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ جہاں کانگریس کو علاقائی جماعتوں کی ان کی اپنی ریاستوں میں اہمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے وہیں علاقائی جماعتوں کو بھی قومی سطح پر کانگریس کے وجود کو اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
ہر جماعت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک اور ملک کے عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے موقف کا تعین کرے ۔یہ درست ہے کہ کانگریس نے کرناٹک میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور ممتابنرجی نے بنگال میں بھی بی جے پی کو شکست دی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے مسائل جداہوتے ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ بی جے پی کی پروپگنڈہ مشنری کا بھی جواب دینا ہوگا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوششوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی ۔ اپوزیشن کے سامنے راستہ ضرور موجود ہے لیکن یہ طویل اورصبر آزما ہوگا جس کیلئے اپوزیشن کو کمر کس لینی چاہئے ۔