یو پی حکومت خود پر قابو رکھے

   

غمِ ہستی سے بس بیگانہ ہوتا
خدایا کاش میں دیوانہ ہوتا
اترپردیش کی آدتیہ ناتھ کی زیر قیادت بی جے پی حکومت ایسا لگتا ہے کہ مسلم مخالف اقدامات اور کارروائیوں کے معاملے میں سارے ملک میں سبقت لے جانا چاہتی ہے ۔ ویسے بھی اترپردیش میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کو عدالتوں کی سرزنش کا بھی سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ اس کے باوجود آدتیہ ناتھ کی حکومت خود پر کنٹرول کرنے اور اپنی کارروائیوںکا از سر نو جائزہ لینے کو تیار نہیں ہے ۔ اترپردیش میں بے شمار مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کردیا گیا ۔ معمولی باتوں کو بہانہ بناتے ہوئے مکانات اور دوکانات کو زمین بوس کیا گیا ہے اور عدالتوں نے ایک سے زائد مرتبہ ایسی کارروائیوں کی مذمت کی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات پر سرزنش بھی کی گئی ہے ۔ تازہ ترین کارروائی میں مکانات کے انہدام کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کیلئے معاوضہ ادا کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں اس کے باوجود آدتیہ ناتھ کی حکومت قانون کے دائرہ میں کام کرنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے ۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر گوشہ دستور اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرے ۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا حکومتوں کا ذمہ ہوتا ہے ۔ اترپردیش میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ حکومت خود قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے اور عدالتوں سے لگنے والی مسلسل پھٹکار کا بھی اس پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔ حکومت کی مخالفت کرنے اور احتجاج کرنے والوں کی جائیدادوں کو ضبط تک کرلیا گیا تھا ۔ اب جبکہ ملک میں وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میںمنظور کرلیا گیا ہے تاہم ابھی اس پر صدر جمہوریہ ہند کے دستخط ہونے باقی ہیں اور اسے قانون کی شکل حتمی طور پر نہیں دی جاسکی ہے اس کے باوجود یو پی حکومت نے اس بل کا سہارا لیتے ہوئے اپنی مسلم دشمنی کو ایک بار پھر عیاں کردیا ہے اور جن وقف جائیدادوں کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا ان کو ہتھیا لینے اور چھین لینے کی کوششیں اور اقدامات شروع کردئے گئے ہیں۔ یہاں بھی حکومت قابو کھوتی نظر آر ہی ہے ۔
وقف ترمیمی بل کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ابھی اس پر صدر جمہوریہ ہند کے دستخط نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی اسے گزٹ میںشامل کیا گیا ہے ۔ اس کے نفاذ کی تاریخ کا بھی تعین نہیںہوا ہے اس کے باوجود ابھی سے وقف جائیدادوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اترپردیش میں شروع کردیا گیا ہے ۔ اس سے یوگی حکومت کی مسلم دشمنی کا ایک بار پھر ثبوت مل گیا ہے ۔ یوگی کی حکومت اترپردیش میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف کارروائیوں اور اقدامات کو آگے بڑھانے میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتی ۔ حکومت کو اس قدر بے قابو ہوتے ہوئے کام نہیںکرنا چاہئے ۔ وقف بل کے خلاف کئی افراد نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ کانگریس پارٹی بھی عدالت سے رجوع ہوئے ہے ۔ انفرادی طور پر کئی افراد عدالت سے رجوع ہوچکے ہیں۔ ابھی ان درخواستوں کی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے ۔ اس پر عدالتیں کس طرح کی رائے کا اظہار کرتی ہیں یہ دیکھا جانا باقی ہے ۔ صدر جمہوریہ ہند کے دستخط کئے جانے باقی ہیں ۔ اس سے قبل ہی اترپردیش میںجنگل راج شروع کردیا گیا ہے اور ضلع کلکٹرس کو وقف جائیدادوں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت دیدی گئی ہے ۔ سرکاری عہدیدار بھی اس معاملے میں حکومت سے دو قدم آگے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیںاس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومتیں وقت کے ساتھ بدل جائیں گی تاہم قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدامات کرنے پر عہدیداروں کو عدالتی کشاکش کا شکار ہونا پڑسکتا ہے اورا س وقت ان کی مدد کیلئے کوئی جماعت آگے نہیں آئے گی ۔ حکومت کے اشاروں پر کام کرنے کی بجائے قانونی دائرہ کی پابندی بہرصورت کی جانی چاہئے ۔
جن گوشوں سے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی گئی ہے وہ اترپردیش حکومت کو بھی اس معاملے میں فریق بناتے ہوئے وقت سے پہلے ہی مسلم دشمن اقدامات کرنے سے روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت مسلم دشمنی میں اس قدر آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ سوائے مسلمانوںکو حاشیہ پر لانے کے کوئی اور کام کرتی دکھائی ہی نہیں دے رہی ہے ۔ سارا انتظامیہ بھی اسی رنگ میں دکھائی دے رہا ہے ۔ اترپردیش حکومت اور وہاں کے سرکاری ملازمین کیلئے ضروری ہے کہ وہ قانون کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ جانبدارانہ اور فرقہ پرستانہ طرز عمل ترک کریں۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ روکا جائے اور دستور اور قانون کے دائرہ کار کا احترام کرتے ہوئے خود پر قابو رکھیں۔
مابعد وقف بل ‘ موثر حکمت عملی ضروری
ملک کی پارلیمنٹ نے وقف ترمیمی بل کو منظور کرلیا ہے ۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں ہی ایوانوں میں اسے منظوری دیدی گئی ہے ۔ کئی گوشوں سے اس بل کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انفرادی طور پر کئی افراد اور کانگریس پارٹی کی جانب سے بھی بل کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ عدالتی اور قانونی لڑائی ضرور اہمیت کی حامل ہے اور یہ کام شروع کردیا گیا ہے تاہم اس بل کی منظوری کے بعد مسلمانوں کی مشترکہ اور انتہائی موثر حکمت عملی بنائی جانی ضروری ہے ۔ موثر حکمت عملی کے ذریعہ ہی مخالفین کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکتا ہے ۔ ان کے منصوبوںکو خاک میں ملایا جاسکتا ہے ۔ ایک جامع اور موثر حکمت عملی کے ذریعہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو وقف بل کی منظوری سے پیدا ہوئی ہے ۔ حکومت کے عزائم اس سے واضح ہوگئے ہیں۔ حکومت مزید ایسے فیصلے کرسکتی ہے جو امت مسلمہ کے خلاف ہوسکتے ہیں۔ وقت سے پہلے تیاری کرتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کیا جانا چاہئے اور دستور اور قانون کے دائرہ کار میںرہتے ہوئے ایک طویل لڑائی کیلئے ابھی سے تیاری کرنا اشد ضروری ہے ۔