یو پی پولیس ‘ کیا ماورائے قانون ہے ؟

   

خدا ہی حفاظت کرے تو کرے
سنا باغ کو باڑ کھانے لگی
یو پی پولیس ‘ کیا ماورائے قانون ہے ؟
اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ سیاسی اعتبار سے بھی یہ بہت حساس نوعیت کی حامل ریاست ہے ۔یہاں حکومت اور انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ اور بھاری ہوتی ہیںاور ان کا خیال رکھا جانا ہوتا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ جس طرح یو پی کی حکومت بے لگام ہے اسی طرح یو پی کی پولیس بھی بے لگام ہوگئی ہے۔ یو پی پولیس کے تعلق سے جو اطلاعات مل رہی ہیں ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ فورس خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگی ہے ۔ جب سے ریاست میں آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بنے ہیں انہوں نے حکومت کو انتظامی صلاحیتوں سے اور اپنی پالیسیوں سے چلانے کی بجائے پولیس کے زور پر چلانے کا طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے ۔ جس وقت سے انہوںنے حلف لیا تھا اس کے بعد سے ریاست میں انکاونٹرس کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔ یقینی طور پر جو لوگ مارے گئے وہ جرائم پیشہ ضرور تھے لیکن پولیس کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ مجرمین کو سزائیں دے ۔ پولیس کا کام انہیں گرفتار کرنا اور انہیںمقدمات درج کرتے ہوئے عدالتوں کے حوالے کردینا ہے ۔ لیکن آدتیہ ناتھ کی حکومت نے پولیس کو یہ اختیارات سونپ دئے تھے کہ وہ مجرم ہونے کے شبہ میں جس کا چاہے انکاونٹر کردے۔ گذشتہ دنوں جب سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ خود مرکزی حکومت اور یو پی حکومت پولیس کی طاقت کے ذریعہ اس احتجاج کو کچلنا چاہتی ہے ۔ جس طرح سے احتجاجیوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ طریقہ کار یو پی پولیس نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی مذموم اور قابل مذمت تھا ۔ یو پی کی پولیس انتہائی فرقہ وارانہ طرز پر کام کر رہی ہے ۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پاکستان جانے کے مشورہ کھلے عام پولیس عہدیدار دے رہے ہیں اور ان کے اعلی عہدیدار ایسا کرنے والے عہدیداروں کی مدافعت اور حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے عہدیداروں کی سرزنش کرنے کی بجائے ان کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک ذہنیت بن گئی ہے اورا س کے تدارک کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
جس طرح سے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاجیوں کو یو پی پولیس نے بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا اور کئی احتجاجیوں کو موت کی نیند سلادیا اسی طرح اب یہ پولیس سیاسی قائدین کو بھی خاطر میںلانے تیار نہیں ہے جو اپوزیشن جماعتوںسے تعلق رکھتے ہیں۔ کل جب کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا اترپردیش میں دورہ کر رہی تھیں تو انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے بھی طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ پرینکا گاندھی کا دعوی ہے کہ انکا گریبان پکڑنے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کا گلا دبایا گیا ہے ۔حالانکہ یو پی پولیس اس طرح کے کسی الزام کی تردید کرتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یو پی پولیس انتہائی بے لگام فورس بن گئی ہے اور اسے سیاسی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کو بھی خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیںہے ۔ سیاسی قائدین تو کسی طرح اپنا دفاع اور بچاو کرلیتے ہیں لیکن جس طرح سے احتجاجیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا ۔ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور گھروں میں گھس کر قانون کے نام پر غنڈہ گردی کی گئی ہے اس سے یو پی پولیس کی ساکھ سارے ملک میں انتہائی خراب ہوگئی ہے ۔ یو پی پولیس کی امیج پہلے ہی سے کچھ اچھی نہیں تھی لیکن اب تو یہ پولیس فورس سے زیادہ قانون شکنی کرنے والی فورس بن گئی ہے ۔ گھروں میں گھس کر لوگوں کو مارپیٹ کی جا رہی ہے ۔ گرفتار کرکے اذیتیں دی جا رہی ہیں اور تو اور سماج دشمن عناصر کی طرح عوام کی جائیداد و املاک کو نقصان پہونچایا جا رہا ہے ۔
مخالفین کو کچلنے اور حکومت مخالف احتجاج پر قابو پانے کیلئے ہر حکومت پولیس کی مدد لیتی ہے لیکن جس طرح سے یو پی پولیس کو یوگی کی خانگی فورس میں تبدیل کرتے ہوئے ان کے اشاروں پر اور ان ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے مصروف کردیا گیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس ملک کی جمہوریت اور دستورکی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ اس ملک میںاحتجاج کا سبھی کو حق حاصل ہے ۔ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کو کوئی نہیںروک سکتا ۔ پولیس کا استعمال ہوسکتا ہے کہ آدتیہ ناتھ کی حکومت کیلئے فی الحال مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن رہا ہے لیکن مستقبل میں یہی طریقہ کار ان کیلئے مشکل کا بھی باعث ہوسکتا ہے ۔ جمہوری ڈھانچہ میں پولیس کو اس طرح کے ماورائے قانون رویہ کی کوئی اجازت نہیں ہوسکتی ۔