ڈاکٹر قمر حسین انصاری
کسی مسلمان نے ایک یہودی سے پو چھا :’’ تم لوگ اتنے امیر اور طاقتور کیسے بن گئے ؟ دُنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں تمہاری ہیں۔ ساری دنیا میں تمہاری حکومت چلتی ہے۔ حالانکہ تمہاری تعداد بہت کم ہے۔ تم صرف 9.2 ملین ہو جب کہ ہم ساری دُنیا میں ایک عرب چالیس کروڑ ہیں۔ پھر بھی ہم کمزور اور محکوم ہیں۔
یہودی نے جو جواب دیا اُسے ذرا غور سے اور ذہن کھول کر پڑھیے۔ اُس نے کہا : ’’ہم تین اُصولوں پر عمل کرتے ہیں …
۱۔ ہم اپنی زندگی علم حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی بجٹ تمام عرب ممالک کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے۔
۲۔ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی بزنس (تجارت) کرنا سکھاتے ہیں۔ جبکہ تم لوگ اپنے بچوں کو صرف نوکری کرنا سکھاتے ہو یہ جانتے ہوئے بھی کہ تجارت کرنا سنت رسولﷺ ہے ۔
۳۔ ہم اپنے اندر بھائی چارگی پیدا کرتے ہیں۔ ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں ہم ایک دوسر سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔ اور اپنے مذہب کے لئے کام کرتے ہیں ۔ ہم متحدہ اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ جو پسماندہ ہیں اُن کو ہاتھ دیکر اور اُٹھاتے ہیں۔ ہماری قوم میں کوئی بھیک نہیں مانگتا ۔ جبکہ تم ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر نیچے گراتے ہو۔ تم بٹے ہوئے ہو کیونکہ تمہارا ریموٹ کنٹرول غیروں کے ہاتھ میں ہے ۔ تمہارا گھر گھر بٹا ہوا ہے ۔ تم معمولی مسلکی اختلافات پر ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہو، کُفر کا فتویٰ دیتے ہو ’’ میں صحیح اور دوسرا غلط ‘‘ ، تمہا را ذہن بن چُکا ہے اسی لئے تم متحد نہیں ۔
اب ذرا سنبھل کر یہودی کے جواب کا آخری ٹکڑا پڑھئیے ۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ ہم نے یہ تینوں اُصول تمہارے نبی کریم ﷺ سے سیکھا ہے ‘‘ ۔ اللہ اکبر !
صاحبو ! سونچو کہ غیروں نے ہمارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنا کر اس دُنیا میں کامیابی اور کامرانی حاصل کرلی اور ہم نے دُنیا کے لوگوں کی اتباع کی اور اُن کی تہذیب و کلچر کے غلام بنے ! اور بھول گئے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ’’وہی اللہ ہے جس نے رسولؐ کو ضابطہ و ہدایات اور دین حق دے کر اس لئے بھیجا کہ وہ ہر دین کے مقابلہ میں اسے پوری انسانی زندگی پر غالب کردے‘‘۔ (سوره صف )
ہمارے ہم وطن پارسی لوگ بھی کم و بیش اُن تین اصولوں پر عمل کرتے ہیں اور بڑے کامیاب ہیں مگر وہ لوگ یہودیوں کی طرح ظالم اور سفاک نہیں ہیں بلکہ معاشرہ میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اپنا محاسبہ خود کیجئے کہ ہم نے قرآن مجید کو ترجمہ اور تفسیر سے نہ پڑھا جو کتاب ہدایت ہے اور کب سیرۃ النبیؐ کی کتابوں کو پڑھا جو مشعل راہ ہے ۔
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثوبانؓ سے کہا : ’’ اے ثوبان تمہارا اُس وقت کیا بنے گا جب دوسری اُمتوں کے لوگ تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گے جیسے تم کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہو ۔ حضرت ثوبانؓ نے پوچھا ۔’’ یا رسول اللہ ! آیا اُس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے ؟ ‘‘ ۔ آپ ؐ نے جواب دیا : ’’نہیں تمہاری بہت زیادہ تعداد ہو گی ۔ دراصل تمہارے دلوں میں ’’وہن ‘‘ڈال دیاجائیگا۔ صحابہؓ نے پوچھا : ’’ اللہ کے رسول’وہن‘ کیا ہوتا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور جہاد کی کرا ہیت‘‘۔ (مسند احمد)
آج کی اُمت مسلمہ پر حضور ﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری اُترتی ہے ۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ دنیا کے ۲۳عرب ممالک ۵۷ اسلامی ممالک ایک ارب اور چالیس کروڑ مسلمان غزہ میں ایک بوتل پانی کی نہیں لیجاسکے ! !!
ناموافق حالات میں ایمان اور اسلامی تعلیمات پر ڈٹے رہنا ہی اصل جوانمردی ہے۔ آپ کا کردار اللہ کی رضا مندی کے لئے ہو۔ اللہ جسے گرائے اُسے دنیا نہیں اُٹھا سکتی اور جسے اُٹھائے دُنیا اُسے نہیں گرا سکتی ۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ اچھا گمان رکھیں۔ کچھ دروازے نہیں کُھلے کیونکہ یہ آپ کے لئے نہیں تھے ۔ نا اُمیدی کفر ہے۔ پس اچھا گُمان ہی رکھیں اسی لئے اپنی زندگی کو اللہ اور اُس کے رسول کے مطابق ڈھالیں ۔ آخر میں ہم ہونگیں اور ہمارا رب …!
لوگو! اب بھی وقت ہے کہ ہم ان تین اُصولوں پر اپنی زندگیوں کو لائیں اور پھر دیکھیں کس طرح آپ دُنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر اُبھرتے ہیں ۔ مسلمانو! اپنے آپ کو بدلئے۔ہماری موجودہ حالتِ زار کو شاعروں نے یوں بیان کیا ؎
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
(علامہ اقبالؔ)
اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت بڑوں میں
پیروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
( مولانا الطاف حسین حالیؔ )
یا رب العالمین تو ہمارے دلوں سے’’وہن ‘‘ نکال دے ۔ ہمیں جذبۂ ایمانی سے سرفراز فرما۔ ہمیں تیری اور تیرے حبیب بادی آعظمؐ کی رسی کو پھر سے مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق و ہدایت فرما۔ فلسطین کے بے سہارا اور مظلوم مسلمانوں کی غیبی مدد فرما جو اپنا سب کچھ جان ومال کو داؤ پر لگا کر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اُن کے جان و مال کی حفاظت فرما۔ اُن کے جذبۂ ایمانی کو ، اُن کے شوق شہادت کو ، اُن کے پاکیزہ نذرانوں کو اپنی بارہ گاہ میں قبول فرما کر انہیں کامیابی سے سرفراز فرما اور اُمت مسلمہ جو سوئی ہوئی ہے اُن کو جگا دے ۔ میرے اللہ ہمیں ایک اُمتِ محمدیؐ بناکر ہم میں اتحاد پیدا کر ۔ (آمین یا رب العالمين)
اے اقصیٰ گواہ رہنا یوم محشر میں ہم تجھ سے دور تو تھے لیکن ہماری آنکھیں تیرے غم میں آنسو بہا رہی تھیں ! رسول اللہ کی پیروی کرتے ہوئے ہم یہ دُعا کرتے ہیں ۔ ’’اے اللہ ! بے شک ہم آپ کو اُن دشمنوں کے مقابلے میں لاتے ہیں اور اُن کے شرور سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں‘‘۔( سنن ابی داؤد – باب ما يقول الرجل إذا خاف قوما)