یہ سیاسی چوکیدار نہیں بلکہ حقیقی چوکیدار ہیں جنھیں زندگی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

,

   

چوکیدار بولے یہ ایسا کام ہے جس میں احترام کے بارے میں سونچ بھی نہیں سکتے

وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پروفائل میں ’’ چوکیدار ‘‘ جوڑنے کے بعد اتوار کے روز سوشیل میڈیا پر ہیش ٹیاگ ’’میں چوکیدار ‘‘ وائیرل ہوا۔ منسٹروں سے لے کر بی جے پی کے تمام لیڈراو رکارکن اسے اپنے نام کے ساتھ جوڑنے لگے۔

این بی ٹی نے پتہ لگایاکہ جو اصلی زندگی میں چوکیدار ہیں ان کی حالات کیسے ہیں۔دن ہویا رات ‘ سردی ہو یابارش‘ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپ کی ہاوزنگ سوسائٹی‘ کالونی‘ گھر ‘ افس کی حفاظت کا ذمہ ان چوکیدار یعنی گارڈس پر پر کافی حد تک ہوتا ہے۔

لیکن جب ہم نے ان سے بات کی تو پتہ چلا کہ ان کے لئے پوری معاوضہ ملنا تک ایک چیالنج ہے۔بدکلامی اور بدمعاشی کی حرکتوں کا بھی شکار انہیں بننا پڑتا ہے۔یوپی کے فیروز آباد سے دہلی آکر ایک دفتر کی چوکیداری کررہے مہیندر پال نے کہاکہ بس کسی طرح زندگی کٹ رہی ہے ۔

نہ ہی اس میں کوئی احترام ہے اور نہ مستقبل ۔اٹھ گھنٹوں کی مسلسل نوکری کے بعد محض بارہ سے چودہ ہزار ملتے ہیں۔ آتے جاتے گالی گلوج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر کچھ کہیں تو بدتمیزی کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ یہاں کچھ لوگوں نے دوسرے چوکیدار کے ساتھ مارپیٹ کردی تھی ‘ اس لئے ڈر بھی لگارہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس کام میں تو آپ احترام کے متعلق سونچ بھی نہیں سکتے۔ کوئی بھی بدتمیزی کرکے چلا جاتا ہے۔

لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ ہم انسان ہی نہیں ہیں۔کچھ اس طرح کی کہانی بھی نتیش کی ہے ۔ جو چار سال سے کوٹلہ کے پاس ایک اسکول کا چوکیدار ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تنخواہ تو مل جاتی ہے مگر صحیح سے کوئی ہم سے بات بھی نہیں کرتا۔ٹھکیدار کی مرضی پر ہماری نوکری ہے ۔

وہ کبھی بھی ہمیں نوکری سے باہر کردے ‘ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ آج کام ہے کل نہیں۔ہمارا مستقبل کچھ نہیں ہے۔چوکیدار کا درد یہی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے درد یہ ہے کہ ان سے ڈیوٹی بدلے پیسے لئے جاتے ہیں۔ یعنی جتنی تنخواہ پر بات ہوتی ہے ‘ اسے کام دیاجاتا ہے

۔ زیادہ تر کو پی ایف نہیں ملتا۔ ایک روز بھی چھٹی نہیں ہوتی ۔ چھٹی پر جانے کا مطلب تنخواہ کی کٹوتی ۔

طبعیت خراب ہوجائے چاہئے طوفان آجائے‘ ہرحال میں اٹھ گھنٹے کی ڈیویی کرنی ہوتی ہے۔مجبوری اور بے بسی کا دوسرا نام ہے چوکیداری ۔ جب ہم دریاگنج میں ایک پبلشرس کے پاس پہنچے تو وہاں ڈیوڈی دے رہے تھے میرٹھ کے سنیل کمار ۔

سنیل کرسی پر بیٹھے تھے اور دوکان کا شکار گرا تھا۔بہت ہی سست کام ہے بس گھنٹے گنتے جاؤ۔ ہمیشہ ہاتھ جوڑ کر ہی بات کرنی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کون صاحب ناراض ہوجائے اورہماری نوکری چلی جائے۔

رات میںیہاں پر ڈیوٹی کرنا ایک طرح سے جان جوکھم میں ڈالنے ہے ‘ کیونکہ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ایک گھر کے باہر سکیورٹی پر تعینات جھارکھنڈ کے سوگنام پسوان سے ہم بات ہی کررہے تھے کہ تبھی ان کے مالک نکلے۔

ڈانٹتے ہوئے کہایہاں کیاکررہے ہو‘ گیٹ پر جاؤ؟۔ سوگنام نے کہاکہ صرف ساڑھے دس ہزار ملتے ہیں۔ جس میں پورے خاندان کا خرچ چلتا ہے۔

ڈنٹ پڑے یا پھٹکار‘ نوکری تو کرنا ہے ہے۔ سچ کہوں تومجبوری کے نام چوکیداری ہے۔ہم جب مولانا آزاد میڈیکل کالج کی گیٹ پر پہنچے تو وہاں دو سکیورٹی گارڈ ملے‘ جو پہلے آرمی میں کام کرتے چکے ہیں۔

پرکاش اور وجئے نے کہاکہ ہم یہاں ہے تو اندر ڈاکٹر اور عملہ خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے ‘ لیکن گیٹ پر کھڑے رہنے اور جی حضوری کرتے رہنا سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ چوکیداری تو حالات سے سمجھوتا ہے اور کچھ نہیں۔