۔2019 ء کے انتخاب نظریاتی جنگ اور شخصیتوں کا تصادم

   

غضنفر علی خان
حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو تین ریاستوں میں شکست ہوئی اور کانگریس نے چھتیس گڑھ ، راجستھان کے علاوہ مدھیہ پردیش میں کامیابی حاصل کی۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کے نظریہ کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش میں اس کا 15 سالہ دبدبہ ختم ہوگیا۔ یہ تینوں ریاستیں بی جے پی کے مضبوط قلعہ کے مماثل تھے اور ہندی زبان بولنے والی ریاستیں سمجھی جاتی تھیں ۔ بی جے پی کے نظریہ یعنی ہندو راشٹر کے قیام کو یہاں کے عوام نے مسترد کردیا ۔ اس سے سیاسی پنڈتوں نے یہ اندازہ لگایا کہ 2019 ء کے انتخابات میں بھی سارے ملک سے بی جے پی کے نظریہ کو مات ہوگی۔ حالانکہ یہ پیش قیاسی ابھی قبل از وقت ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظریہ سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ’’ہندوستان کے رائے دہندوں کے پیش نظر صرف دھرم یا مذہب کا ہی مسئلہ نہیں ہوتا ، وہ کسی بھی پارٹی کی کارکردگی کو اہم سمجھتے ہیں ۔ کانگریس کا نظریہ ہمیشہ سے مذہبی تحمل پسندی ، رواداری پر مبنی رہا اور اس فکر کو کانگریسی لیڈروں خاص طور پر ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور ان کے ساتھیوں نے اپنے خون جگر سے پالا پوسا اور ملک کے عوام نے اس فکر کو قبول بھی کرلیا ہے ۔ کسی مذہبی حکومت کا تصور بھی ان کے ذہنوں میں نہ تھا لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو راشٹر کا قیام ملک کے رائے دہندوں کو پسند آگیا ہے ۔ اس لئے یہ بات کہنی پڑے گی کہ سیکولرازم اور مدہبی رواداری ، تحمل پسندی کو عوام اب بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ ان دو نظریات کے درمیان تصادم کی فضاء پیدا ہوگئی تھی اور ہندو توا کے حامیوں نے اپنی کوشش بھی کی، اس میں جزوی طور پر کامیابی بھی حاصل کی ۔ اس کے علاوہ کانگریس پار ٹی کی حکومتوں نے اپنی کاہلی کی وجہ سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ۔ بی جے پی کی عارضی کامیابی کا یہ کھلا راز ہے کہ کانگریس حکومتوں کی اس روش نے بی جے پی کو بڑھاوا دیا تھا جب 2018 ء کے اواخر میں وہی ہوا جو کانگریس پا رٹی کے ساتھ 2014 میں ہوا تھا ۔ وزیراعظم نے ہندوستانی سیاست میں ’’سیٹوں کے سوداگر‘‘ کا رول ادا کیا اور بی جے پی کو کامیابی دلائی لیکن سیاست میں خوابوں اور سپنوں سے حکومت نہیں ہوسکتی ۔ یہاں تو عوام اپنے روز مرہ کے معاشی مسائل کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ خواب صرف ایک رات ہی کی زندگی رکھتے ہیں اور سویرا ہونے پر بکھر جاتے ہیں ۔ چنانچہ بی جے پی کے دکھائے ہوئے خواب کی تعبیر ان کی سمجھ میں آگئی ، وہ پچھلے 5 برسوں سے دکھائے گئے خوابوں کی سچائی کو جان گئے اور پھر لوٹ کر کانگریس کی طرف راغب ہوگئے ۔ سیاسی نظام میں سپنوں اور خوابوں کا وہی حشر ہوتا ہے جو مودی حکومت کا ہورہا ہے ۔ پھر عوام سیکولرازم کی جانب راغب ہورہے ہیں، یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ہر دور میں محتلف نظریات میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ سیکولرازم اس ملک میں اپنی تو سیع اور بقاء کے سارے اسباب رکھتا ہے ۔ کانگریس پارٹی نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور بیدار ہوئی ۔ کانگریس کی اس بیداری نے ملک میں پرانے نظریہ کی جانب رجوع ہونے والے ہندوستانی عوام کو اس جانب رجوع کرنے میں کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی کا بڑا حصہ رہا ہے ۔ مودی ایک طرف اپنی چرب زبانی سے کچھ دنوں کیلئے عوامی مقبولیت حاصل تو کرسکے لیکن اس کے بہتر نتائج دینے میں وہ ناکام ہوگئے ۔ کانگریس پارٹی تو خیر بی جے پی کے دور میں اپوزیشن ہی تھی لیکن راہول گاندھی اور کانگریس پارٹی نے بھی بحث کی اور سیاسی اکھاڑے میں راہول گاندھی کو مودی کے مقابل کھڑا کردیا ۔ اب نوبت یہ ہوگئی ہے کہ ٹی وی پر ہونے والے مباحث میں بی جے پی اپنے کسی پروگرام کو جو عوامی مفاد میں ہو پیش کرنے کے بجائے کانگریس اور راہول گاندھی کی برائی کر رہے ہیں۔ گویا راہول گاندھی ان کے خیال میں واحد رکاوٹ ہیں جو آئندہ اقتدار اور بی جے پی کے درمیان حائل ہیں۔

دراصل ہندوستانی عوام اپنے نئی قیادت کے طلبگار تھے اور انہوں نے نئی قیادت راہول گاندھی کو نجات دہندہ سمجھا ۔ اب 2019 ء کے انتخابات ان میں دو شخصیتوں کے درمیان تصادم بن گئی ہے ۔ یہ چناؤ ایک طرف متضاد نظریات اور دو مختلف لیڈروں کے مابین مقابلہ آرائی کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ راہول گاندھی ایک طرف ہندوستان کے سیکولرازم کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف مودی ہندوتوا اور ہندو راشٹر کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ نظریات کی کشمکش اب دو افراد کے درمیان جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ اب نتیجہ یہ ہوا کہ دو لیڈروں کے درمیان رسہ کشی ہوگئی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کسی حد تک سیکولرازم کے حامی عوام کسی لیڈروں کی تائید کرتے ہیں۔ راہول گاندھی کے بارے میں بی جے پی کہتی ہے کہ وہ کم تجربہ رکھتے ہیں ۔ کانگریس پار ٹی کا دعویٰ ہے کہ راہول گاندھی میں ہندوستان کی قیادت کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ ہندوستانی عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ فی الواقع کون دونوں میں سے تاج اقتدار کا صحیح دعویدار ہوگا۔ بلکہ دو نظریات اور دو افراد کے درمیان اس تصادم کو اب سمجھنے لگے ہیں۔ عوام سیکولر سماج کے حامل ہیں ، ا نہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ رام مندر کہاں اور کب تعمیر ہوگا ۔ ملک میں ہندو راشٹر بنے گا یا نہیں اور یہی بات بی جے پی کیلئے اہم ہے کہ ملک کے عوام کو مندر ، مسجد کے تنازعہ میں الجھایا جائے اور ہندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جائے ۔ کیا ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں خطِ فاصل کھینچنے کی ملک کے عوام غلطی کریں گے یا نہیں تو آنے والے دنوں میں صاف ہوجائے گا ۔ البتہ یہ ضرور ہورہا ہے کہ نظریات اور افراد کے درمیان لڑائی آئندہ چند دنوں میں اور بھی شدید ہوجائے گی۔ کانگریس 2018 ء کے اواخر میں ہوئے چنا ؤ کے نتائج سے اپنے اندر نیا حوصلہ پاگئی ہے تو دوسری طرف بی جے پی اس ہار کا بدلہ لینے کیلئے تیاری کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رسہ کشی 2019 ء کے چنا ؤ پر راست اثر ڈالے گی ۔ ملک کے رائے دہندوں اور خاص کر مسلمانوں کو بڑی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام لینا ہوگا کیونکہ ان ہونے والے چناؤ میں ملک کی قسمت کا فیصلہ بھی ہوگا ۔ اگر عوام نے کانگریس پا رٹی کی فکر کو قبول کیا جس طرح سے تین ریاستوں میں ہوا تھا تو پھر ملک کا دستور ، عدلیہ اور دیگر دستوری ادارے مضبوط ہوں گے ورنہ جس طرح سے ان دستوری اداروں کی اہمیت کو بی جے پی نے کم تر کردیا ہے ، وہی راگنی اب بھی الاپ رہی ہے تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ بہرحال طئے شدہ بات ہے کہ 2019 ء کے چناؤ افراد اور حد نظریات کی کڑی آزمائش ہوں گے ۔