۔6 دسمبر 1992 کو مسجد گرانے کی بھی سازش ہوئی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی بھی

   

ظفر آغا
6 دسمبر 1992 کے روز جب بابری مسجد ایودھیا میں ڈھائی گئی تو اس دن میں تقریباً 11 بجے صبح پریس کلب آف انڈیا دہلی پہنچ گیا۔ وہ عجیب دن تھا جو آج بھی بخوبی میرے دماغ میں نقش ہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا۔ عموماً اتوار کو پریس کلب دن بھر خالی پڑا رہتا ہے۔ لیکن اس روز صبح سے ہی صحافی پریس کلب پہنچنے لگ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں پریس کلب صحافیوں سے کھچاکھچ بھر گیا۔ اصل میں سب کو ہی یہ احساس تھا کہ اس دن ایودھیا میں کچھ بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ اس وقت بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی اپنی خون آلود رتھ یاترا پوری کر ‘مندر وہیں بنائیں گے’ کے نعروں کے ساتھ ایودھیا پہنچ چکے تھے۔ سارے ملک میں زبردست رام لہر تھی۔ فضا میں مسلم مخالف فسادات اور نفرت کی بو تھی۔ اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی بھلا بی جے پی، وشوا ہندو پریشد اور سنگھ کا کون ایسا بڑا نام تھا جو وہاں نہیں تھا۔ ایک اٹل بہاری اکیلے دہلی میں تھے۔ پھر لاکھوں کارسیوک مندر وہیں بنانے کے جذبہ کے ساتھ ایودھیا میں موجود تھے۔اس لئے ہر صحافی کے دل میں یہ کھٹکا تھا کہ آج تو ایودھیا میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ بس ایک میں تھا جو یہ کہے جارہا تھا کہ کچھ بھی ہو مسجد نہیں گرائی جائے گی۔ میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا تھا جہاں ایک ملک کی گنگا جمنی سانجھی وراثت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ہمارے گھر میں ہندو۔ مسلم کا کوئی فرق ہی نہیں تھا۔ ہمارے وطن الٰہ آباد میں دسہرے کی دس تاریخ کو جب رام دل نکلتا تو اس روز ہمارے والد خود ہماری انگلی پکڑ کر رام درشن کروانے لے کر جاتے تھے۔ رام ہمارے بھگوان تو نہیں لیکن ہماری سانجھی وراثت کی ایک انتہائی علامت ضرور تھے۔ ایسے ماحول میں پرورش پاکر ہم کو یہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ بھلا کوئی اس ملک میں مسجد گرا سکتا ہے۔

لیکن 6 دسمبر کے روز ایودھیا نے ہمارا یہ بھرم توڑ دیا۔ ہوا یوں کہ تقریباً بارہ بجے ہمارے ایک صحافی دوست شنکرسن ٹھاکر نے پریس کلب میں آ کر کہا، ظفر مسجد پر کارسیوک چڑھ چکے ہیں۔ مسجد گرائی جا رہی ہے۔ مجھے ایک دھکا لگا لیکن پھر بھی یقین نہیں آیا۔ میں نے جھٹ اس وقت ایودھیا معاملات کے مرکزی وزیر رنگاراجن کمارا منگلم کو فون کیا اور پوچھا کیا واقعی مسجد گرائی جارہی ہے۔ کمار منگلم نے اس بات کی تصدیق کردی۔ لگا پیر کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ لیکن جلد ہی سنبھل گئے۔ پھر سارے دن ہنگامہ خیزی رہی اور صحافی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ رات ہوتے تھکے ہارے گھر پہنچے۔ بی بی سی ٹی وی پر خبریں کھولیں۔ دیکھتے کیا ہیں کہ کارسیوک مسجد کی گنبد پر سوار مسجد توڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں مجھ پر کیا بیتی کہ یکایک آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ بہہ نکلے۔ اور بس اس روز یہ بھی لگا کہ میں مسلمان بھی ہوں۔

ملک میں فساد کی لہر پھیل گئی۔ دو مہینوں کے اندر دو۔تین ہزار مسلمان مار دیئے گئے۔ کیسی سانجھی وراثت، کہاں کی گنگاجمنی ہندوستان۔ 6 ڈسمبر 1992 کو تو ہندو راشٹر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ آخر کوئی تیس برسوں بعد مودی کا ’جدید ہندوستان‘ باقاعدہ ہندو راشٹر ہے۔ سپریم کورٹ سے لے کر پچھلے ہفتے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے تک اس ملک کے مسلمان کو ہر فیصلے پر یہ احساس ہوا کہ اس کو تو انصاف ملا ہی نہیں اور یہ احساس کوئی غلط بھی نہیں تھا۔ دن دھاڑے لاکھوں افراد کے مجمع نے بی جے پی، وشوا ہندو پریشد اور سنگھ کے اشاروں پر مسجد گرائی جائے اور عدالت تمام ملزمین کو باعزت بری کر دے اور کہیے کہ 6 ڈسمبر 1992 کو جو کچھ ہوا وہ سازش نہیں تھی۔ ارے جناب وہ محض بابری مسجد گرانے کی ہی سازش نہیں بلکہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش تھی۔ وہ سازش آج مودی کے زیر سایہ باقاعدہ ایک ہندو راشٹر کا روپ لے چکی ہے، اور کم از کم ابھی اس ملک کا مسلمان باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے لیکن گھبرائیے مت، ایک بابری مسجد کا انہدام نریندر مودی کا ہندو راشٹر ایک باعزم قوم کو غلام نہیں بنا سکتی ہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ صدیوں پرانی ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب اور اس ملک کی سانجھی وراثت کو تیس برسوں کی رام مندر کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا نہیں سکتی ہے۔ اس ملک کے ہندو کو مودی نے جس مسلم منافرت کی افیون پلا کر نشہ میں غرق کر دیا ہے، وہ نشہ اس ملک کی بدحالی سے اب ٹوٹنے لگا ہے۔ ملک میں لوگ سڑکوں پر اترنے لگے ہیں۔ کسان بے چین ہے۔ یو پی میں دلت لڑکی کی آبرو ریزی اور موت سے لاکھوں دلت سڑکوں پر اتر پڑے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان جنتر منتر پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مودی نے جو ہندو۔مسلم منافرت کا جادو پھیلا رکھا تھا، ان کے چھٹنے کے آثار صاف دِکھ رہے ہیں۔ ہٹلر جیسے تاناشاہ نہ چل سکے تو پھر بی جے پی کی تاناشاہی کب تک۔

لیکن بابری مسجد گرائے جانے سے لے کر لکھنؤ فیصلے تک اس ملک کے مسلمان کے لئے ایک سبق بہت واضح ہے۔ اور وہ سبق یہ ہے کہ جس قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سلیقہ نہ آئے غلامی اس قوم کا مقدر ہے۔ اس ملک کی مسلم اقلیت غلامی کی کگار پر ہے۔ اب اس کو اپنے حقوق کے لیے ایک لمبی جدوجہد کرنی ہوگی۔ وہ جدوجہد کوئی لڑائی کی شکل میں نہیں ہوگی۔ وہ تو بس مسلمان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا سلیقہ سکھانا ہوگا۔ اور اس سلیقہ کی راہ سرسید احمد خان دکھا گئے۔ یعنی تعلیم حاصل کر دور جدید میں کامیابی اور سربلندی سے کھڑا ہونے کا ہنر۔ جس روز اس ملک کی مسلم اقلیت نے یہ ہنر سیکھ لیا اس روز پھر کبھی دوسرا 6 دسمبر 1992 نہیں ہوگا۔