,

   

این پی آر ہی این آر سی کی سمت پہلا قدم ، مسلمان اصل نشانہ
پاکستان کا قیام جناح نہیں بلکہ آر ایس ایس لیڈر ساورکر کے انتشار پسند نظریہ کا نتیجہ ، سی اے اے مودی کا ہندوتوا ایجنڈا

٭ این پی آر میں وہی 21 سوالات پوچھے جائیں گے جو آسام این آر سی میں پوچھے گئے تھے
٭ گھر پہنچنے والے افسران کو کاغذ دکھانے کی ضرورت نہیں

٭ سیاہ قانون صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوؤں اور دیگر تمام ہندوستانیوں کیلئے سنگین خطرہ
٭ دستور بچاؤ جلسہ سے شریمتی برندا کرت اور جناب عامر علی خان کا خطاب

حیدرآباد۔26جنوری(سیاست نیوز)قومی رجسٹرار برائے آبادی( این پی آر) دراصل قومی رجسٹرار برائے شہریت( این آرسی)کا پہلا مرحلہ ہے جس میں عوام سے 21سوالات پوچھے گئے ہیںاور یہ وہی سوالات ہیں جو این آرسی کے دوران آسام میںپوچھے گئے تھے۔ این پی آر کے ذریعہ لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ آپ کی والدہ اور والد کہاں پر اورکب پیدا ہوئے ہیںاور ملک کی آبادی کا بڑا حصہ جو غریب طبقات پرمشتمل ہے ان کے پاس خود کی پیدائش کا صداقت نامہ موجود نہیں تو وہ کس طرح اپنے والدین کی پیدائش کے دن اور مقام کا صداقت نامہ پیش کریں گے۔لہذا یکم اپریل سے ملک بھر میںشروع ہونے والے این پی آرمیں حصہ نہ بننے کا آج ہم عہد لیں گے اور اس بات کااعلان کریں گے اگر کوئی افیسر گھر پر آتا ہے اور کچھ استفسار کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہم اس سے پوچھیںگے کہ کیا آپ این پی آر کے لئے آئے ہیں اور اگر وہ ہاں کہتا ہے تو ہم اس افیسر کو واضح طور پر کہہ دیں گے ہم اپنی تفصیلات نہیںبتائیںگے اور کاغذم نہیںدیکھائیں گے۔آج یہاں حیدرآباد کے عنبر پیٹ میںواقع مہارانہ پرتاب حال میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا( مارکسٹ) کی جانب سے دستور بچائو‘ مخالف سی اے اے ‘ این آرسی اور این پی آر جلسہ عام سے خطاب کے دوران سی پی ائی ایم قومی عاملہ کی رکن برندا کارت نے ان خیالات کا اظہار کیاہے۔ نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب عامر علی خان کے علاوہ سی پی ائی ایم ریاستی عاملہ کے لیڈر ڈی جی نرسنگ رائو اور گریٹر حیدرآباد جنرل سکریٹری ایم سرینواس نے بھی اس جلسہ عام سے خطاب کیاہے۔اپنے سلسلے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے براندا کارت نے پاکستان کی تشکیل جناح کے نہیںبلکہ آر ایس ایس کے نظریہ سازوی ڈی ساورکر کے دوقومی نظریہ کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جنگ آزادی کے دوران ملک میںفرقہ واریت کو فروغ دینے کے لئے وقتافوقتا جناح کی مسلم لیگ او رساورکر کی ہندو مہاسبھا نے انگریزوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر کام کیاہے۔محترمہ کارت نے کہاکہ سال2014کے بعد اگر ملک کے حالات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے ائے گی کہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہہ ہٹانے کے لئے برسراقتدار بی جے پی نے ایسے مسائل کو عوام کے سامنے لایاہے جس سے نفرت اور تقسیم کی سیاست کوفروغ ملے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی تاریخ کا سب سے بدترین اقدام نوٹ بندی رہا ہے۔ جس میں کہاجاتارہاتھا کہ کسی غریب کو کوئی نقصان نہیںہوا ‘ کالا دھن رکھنے والے لوگ پریشان ہوں گے مگر قطاروں میںکوئی امیر نہیں کھڑا رہا ہے اور نوٹ بندی کی وجہہ سے ہونے والی اموات میںکہیں پر بھی کسی ارب پتی کانام منظرعام پر نہیں آیاہے۔اور اب دوبارہ سی اے اے‘ امکانی این آرسی او راین پی آر کے حوالے سے کہاجارہا ہے کہ کسی ہندوستانی کو نقصان نہیںہوگا ‘ جو بھی غیر قانونی طریقے سے ملک میںداخل ہوئے ہیںانہیں ڈرنے او رگھبرانے کی ضرورت ہے۔برانداکارت نے اپنے استفسار میں کہاکہ 26جنوری1950کو ہندوستان میں آئین کو نافذ کیاگیا کے آرٹیکل5سے لے کر 21تک شہریت فراہم کرنے کے متعلق وضاحت بیان کی گئی ہے اس کے باوجود مودی حکومت کو کیاضرورت تھی کہ وہ مذہب کے نام پر شہریت دینے کے لئے دستور میںترمیم لانے کاکام کرے۔انہوں نے کہاکہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹرا کے ایجنڈے کو نافد کرنے کے لئے شہریت قانون میںترمیم لائی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس ملک کا ائین ہندوستان کا دل ہے اور اس میںفرقہ پرستی کی بنیا د پر کسی قسم کی ترمیم دل پر وار کے مترادف بات ہوگی ۔برندا کارت نے الزام لگایا ہے کہ نریندر مودی کی زیرقیادت مرکزی حکومت اور آر ایس ایس اس ملک کو کھوکھلے کررہے ہیں ۔شاہین باغ ہویا پھر ملک کے کسی بھی دوسرے مقام پر جہاں سی ا ے اے ‘ این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج چل رہا وہاں پر جناح کی آزادی والے نعرے نہیںبلکہ بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان کی آزادی والے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں عوام کے احتجاج اور حوصلوںسے خوفزدہ ہوکر جنا ح کی آزاد والے نعروں کے الزامات لگارہے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ بھگت سنگھ او راشفاق اللہ جیسے کئی جیالے نوجوان ہیںجنھوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے جام شہادت نوش کیاہے۔ ہندوستان کی آزادی میںہندوئوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی قربانیاں شامل ہیں۔ انہوں نے جنگ آزادی کی جدوجہد کے دوران چورا چوری میںدی گئی پھانسیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ مذکورہ کسانوں میں ہندو اورمسلمان دونوں شامل تھے۔براندا کارت نے کیرالا اسمبلی میںسی اے اے‘ این آرسی اور این پی آر کے خلاف سب سے پہلے پیش کی گئی قرارداد کا بھی ذکر کیا اورکہاکہ اس کے بعد ملک کی ان تمام ریاستوں میںجہاں پر غیر بی جے پی حکومت ہے مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔برندا کارت نے حکومت تلنگانہ اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر رائو کے اعلان کا بھی خیرمقدم کیا اور کہاکہ تاخیر سے ہی صحیح مگر ٹی آر ایس حکومت نے سی اے اے ‘ این آرسی اور این پی آر جیسے قوانین کو ریاست تلنگانہ میںنافذ کرنے کا اعلان کیاہے۔ جناب عامر علی خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ این آرسی صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیںہے ‘ اس کی ضد میں پسماندگی کاشکار تمام طبقات ائیں گے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ ایس سی ‘ ایس ٹی اور اوبی سی کے لوگوں کو دستاویزات کی عدم موجودگی کے نام پر شہریت سے باہر کیاجائے گا اور پھر ہندو بناکر انہیں شہری بنایاجائے گا جس کی وجہہ سے آئین کے مطابق انہیںملنے والی مرعات او ر تحفظات چھین لئے جائیں گے ۔جناب عامر علی خان نے کہاکہ ملک میںبے روزگاری بڑھ رہی ہے اورجیسا کہ سابق مقرر نے کہاکہ ملک کی ستر فیصد آبادی کی دولت ایک فیصدآبادی پر مشتمل کارپوریٹ طبقات کے پاس ہے اور اس کے باوجود مودی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کو 35فیصد سے گھٹاکر 25فیصد کردیا ہے تاکہ ملک کے قدرتی وسائل کو کارپوریٹ طبقات مزید تیزی کے ساتھ لوٹ سکیں۔جناب عامر علی خان نے کہاکہ حکومت اپنی ان ناکامیوں کو چھپانے کیلئے ہندو ‘ مسلم ‘ سکھ ‘ عیسائی اوردیگر اقلیتی طبقات کے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ انہوں نے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی تشکیل مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی اور آج وہ قریب الختم ہے اور اگر ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تشکیل دینے کی کوشش کی جائے گی تو اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیںبچا سکے گا اور مودی حکومت کا بھی یہی منصوبہ ہے۔انہو ں نے کہاکہ اگر میںشاہ او رمودی کو خراب او رغلط کہوں گاتو بی جے پی کے لوگ کہیںگے کہ دیکھو مسلمان کس طرح مودی اورشاہ کو غلط اورخراب کہہ رہیں مگر میںانہیںخراب کہنے کے بجائے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دونوں ملک کو برباد کردیا ہے اور ان کی برقراری ملک کو مزید بربادی کی طرف لے کر جائے گی ۔جناب عامر علی خان نے کہاکہ مودی کو چاہنے والے ہندوستان کو نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ہمہ اقسام کے پھولوں کا ایک گلدستہ ہے اور اس کی گلدستے کوبچانے کے لئے ہم سب کو اپنے گھر وں سے باہر نکلنا ہوگا۔ چاہئے وہ ہندو ہوں یامسلمان‘ سکھ ہوںیا عیسائی تمام کو متحد ہوکر سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک پر منڈلارہے خطرات سے نمٹنا جاسکے۔ (سلسلہ صفحہ 6 پر)