2024 سے پہلے کی صف بندیاں

   

ملک میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے حالانکہ ابھی اچھا خاصا وقت ہے اور اس سے قبل ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں لیکن سیاسی صف بندیوں کا ابھی سے آغاز ہوگیا ہے ۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک محاذ تشکیل دینے اور تمام جماعتوں کوا یک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں وہیں بی جے پی بھی حرکت میں آگئی ہے اور اس نے بھی کچھ جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ کچھ جماعتیں بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو رہی ہیں تو ایسی جماعتیں جو اب تک کسی بھی گروپ کا حصہ نہیں رہیں وہ بی جے پی سے قربت بنانا چاہتی ہیں۔ این ڈی اے کو سابق میں چھوڑ چکی جماعتیں اب این ڈی اے میں واپسی بھی کر رہی ہیں۔ کچھ جماعتوں کے قائدین بھی اب جماعتیں بدلنے لگے ہیں۔ وہ ایک سے دوسری جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ اپنے لئے بہتر مستقبل بنانے کی کوششوں میں ان قائدین کو انحراف کرنا پڑ رہا ہے ۔ ابھی تقریبا دس ماہ کا وقت آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے باقی ہے اس کے باوجود سیاسی سرگرمیاںملک بھر میں تیز ہوگئی ہیں۔ کانگریس کے ساتھ جو اپوزیشن جماعتیں ہیں وہ ایک محاذ تشکیل دینا چاہتی ہیں اور اس کیلئے ابتدائی اجلاس پٹنہ میں منعقد ہوبھی چکا ہے ۔ آئندہ چند دنوں میں بنگلورو میں بھی ایک اجلاس ہونے والا ہے ۔ اسی طرح بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کی جماعتوں کا بھی ایک اجلاس آئندہ دنوں میں ہونے والا ہے ۔ جہاں اپوزیشن اپنی صفوں میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے وہیں بی جے پی بھی اپنی حلیف جماعتوں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اپنی طاقت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے ۔ خود کو ایک دوسرے سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ظاہر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کس اتحاد میں کتنی جماعتیں شامل ہیں۔ حالانکہ دونوں ہی گروپس ایک دوسرے پر غیر فطری اتحاد کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نظریاتی طور پر شدید اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے انتخابی مفاہمت کی جا رہی ہے جو مناسب نہیں ہے ۔
کانگریس اور دیگر جماعتوں کا جو اتحاد بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اس میں کئی جماعتیں ایسی ہیں جو ماضی میں بی جے پی کے ساتھ رہ چکی ہیں۔ ان میں نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ شامل ہے ۔ اسی طرح کچھ اور علاقائی جماعتیں ہیں جو بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کرچکی تھیں لیکن اب وہ اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے جا رہی ہیں۔ اسی طرح جو جماعتیں پہلے این ڈی اے سے علیحدہ ہوچکی تھیں وہ اب این ڈی اے میں واپسی کر رہی ہیں۔ ان میں اترپردیش میں اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی شامل ہے ۔ راج بھر نے جو پہلے بی جے پی کے خلاف سرگرم تھے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد اب وقت کی ضرورت ہے ۔ ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے گرد دو سیاسی گروپس بن رہے ہیں اور دوسری جماعتیں اپنی اپنی سہولت کے مطابق ان کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ حالانکہ اب بھی کچھ جماعتیں ہیں جو ان دونوں گروپس میں بظاہر شامل نہیں ہیں لیکن وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی معاون رہی ہیں۔ ان میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی ‘ بیجو جنتادل اور بھارت راشٹرا سمیتی شامل ہیں۔ یہ جماعتیں ایک سے زائد موقع پر اعلانیہ طور پر اور بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد کرچکی ہیں اور اس کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ بلوں کو منظوری دلوانے میں اہم رول ادا کرچکی ہیں۔ یہ جماعتیں اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کا حصہ نہیں ہیں بلکہ کچھ تو اس میں اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو سبوتاج کرنے کی کوششیں بھی شروع کرچکی ہیں۔
ایک ایسے وقت جبکہ ملک میں دو طرح کے سیاسی گروپس بنتے جا رہے ہیں ان میں دیکھنا یہ ضروری ہے کہ کون سی جماعتیں ہیں جو ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی چاہتی ہیں۔ کونسی جماعتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ جمہوری اقدار کا تحفظ کیا جاسکے ۔ کون ہے جس کے پاس جمہوریت کی بقاء اور تحفظ کے اقدامات کا ریکارڈ ہے اور کون ہیں جو طاقت کی زبان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور مخالفین کو طاقت کے بل پر جھکانے یا ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ملک کے عوام کے سامنے جمہوریت کی بقاء اور اس کے تحفظ اور دستور و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے ۔