موت اُسکی ہے جسکا زمانہ کرے افسوس
یوں تو دُنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کیلئے
آہ! ظہیر الدین علی خاں
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
سات(7) اگسٹ پیر کو شام 6بجے دماغ ماوف ہوچکا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کروں تو کیا کروں، اپنے عزیزوں کو یہ خبردوں تو کیسے دوں الفاظ بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے دل چاہتا تھا کہ چیخوں چلاوں اور دنیا کو یہ بتاوں کہ اب ملت کا ہمدرد ملت کا محسن ملت کی تڑپ پر تڑپنے والا ان کی حالت پر آنسو بہانے والا قوم و ملت کی ترقی و خوشحالی کے منصوبہ بنانے والا ، یتیموں یسیروں سے شفقت، غریبوں سے محبت ، ریاکاری سے نفرت ، فرقہ پرستوں سے عداوت ، بے بسوں بے کسوں اور مجبوروں سے مروت کرنے والا ، ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت ، نمونہ شرافت ، کمزوروں و بے آوازوں کی آواز بن کر ظالموں کے ایوانوں میں ہلچل مچانے والا ان پر اپنی حق پسندی انصاف پروری ، ظلم بیزاری، انسانیت نوازی کے ذریعہ ہیبت طاری کرنے والا مرد مجاہد اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔ملک و ملت کو ملت کے ہر فرد کو ہم سب کو داغ مفارقت دے گیا ، 63 سال 3 ماہ کی عمر میں اس نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ہاں ! ہاں ! ظہیرالدین علی خان مینجنگ ایڈیٹر سیاست ہم سے جدا ہوگئے ۔ ابھی تو ان سے ملاقات ہوئی تھی ان سے بات ہوئی تھی کچھ دیر پہلے ہی ہم نے انہیں مسکراتے دیکھا تھا ، ابھی تو ہم نے انہیں یہ کہتے سنا تھا کہ ہمیں بہت دور جانا ہے ، ملت کی تعلیمی و معاشی ترقی کو یقینی بنانا ہے ، گھر گھر علم کی روشنی پھیلانا ہے ، ملت کے ہر فرد کو اس کے دستوری حقوق یاد دلانا ہے ۔ ’’ کل نفس ذائقۃ الموت ‘‘ ( ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) اللہ ایک وقت مقررہ تک اپنے بندوں کو اس دار فانی میں رکھتے ہیں اور پھر اپنے پاس بلالیتے ہیں ۔ بہرحال جناب ظہیرالدین علی خاں کی رحلت نے نہ صرف ارکان خاندان کو سیاست فیملی اور تلنگانہ یا حیدرآباد کے عوام بلکہ سارے ملک کے مظلوموں و کمزوروں اور انسانیت میں یقین رکھنے والوں کو دہلاکر رکھ دیا چونکہ وہ اپنی انسانیت نوازی کیلئے غیر معمولی شہرت رکھتے تھے اور اللہ نے انہیں مظلوموں کیلئے تڑپنے دھڑکنے والا دل ان کے بارے میں سوچ و فکر کرنے والا ذہن عطا کیا تھا ، اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے انتقال پر ملال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی اور پھر دفتر سیاست سے لیکر ہمارے گھروں کے فونس اور موبائیل فونس پر مسلسل گھنٹیاں بجنے لگیں ، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ ہائے ! یہ کیسے ہوا ؟ اپنی زندگی بالخصوص صحافتی زندگی کے 32 برس میں نے ان کے ساتھ ان کی نگرانی میں گزارے ، مجھے جہاں میرے والد محترم ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان نے سجایا ، وہیں ظہیر الدین علی خان نے سنوارا ، میری شخصیت کو نکھارا ، قدم قدم پر میری رہنمائی کی ، صحافت کے اسرار و رموز سے واقف کروایا ، بزنس کی حکمت عملی سمجھائی ،اکاونٹس کی اہمیت واضح کی اور یہ بتایا کہ اپنے قلم سے نکلنے والے الفاظ کس طرح حقیقت میں ایک ہتھیار کا کام کرتے ہیں اور کیسے عوام کی راحت کا باعث بھی بنتے ہیں اور کس طرح ظالم و جابر حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل مچاتے ہیں ۔ ظہیر صاحب کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اللہ تعالی نے انہیں سادگی عاجزی و انکساری ، غریب پرواری ، دریا دلی ، فراخدلی ، وسیع الذہنی ، وسیع القلبی ، حق گوئی و بیاکی ، سچائی ، راست بازی ، ملنساری ، شریف النفسی ، جیسی بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ۔ خود غرضی مفاد پرستی اور نفسانفسی کے اس پرآشوب دور میں انہوں نے زندگی بھر اپنے مفادات پر ملی مفادات کو اولین ترجیح دی ۔ انہیں جھوٹ ، ریاکاری ، نمود و نمائش ، خود غرضی اور ملت و ضمیر فروش عناصر ،ملی مفادات کے سوداگروں ، لیٹرے سیاستدانوں ، غرور و تکبر کی مہلک بیماری میں مبتلا شخصیتوں سے نفرت تھی ۔ وہ مہذب اور دلنواز شخصیت کے حامل تھے ان کی انتظامی صلاحیتیں قابل رشک تھیں ، جہاں و بڑوں کا بے حد ادب و احترام کرتے وہیں چھوٹوں سے پیار کرتے محنتی اور پابند ڈسپلن نوجوانوں ، ہونہار طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ جہاں تک ان کی سادگی کا معاملہ ہے ان سے ملنے والا ہر کوئی چاہے وہ امیر ہو یا غریب تعلیمیافتہ ہو یا غیر تعلیمیافتہ ہنر مند ہو یا غیر ہنر مند ، بچے ، بوڑھے ، جوان سب خود کو ان کے سب سے زیادہ قریب سمجھتے ، ان کی سادگی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سادگی کا مثالی نمونہ تھے ، کسی نے کیا خوب کہا کہ سادگی روحانیت کا لباس ہے سادگی فطرت کا اصول ہے ، سادگی سنجیدہ انسان کی روش ہے اور سادگی بامقصد انسان کا طرز حیات ہے ۔ ظہیر صاحب میں اللہ عزوجل نے جذبہ ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا اور انہیں غیر معمولی پاکیزہ سوچ و فکر عطا کی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ ہر کسی کو بہترین مشوروں سے نوازتے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مشورہ ایک امانت ہے ۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد میں ہمیشہ آگے رہتے اور اس معاملہ میں ہمارے آقا و مولی حضرت احمد مجبتی محمد مصطفے ﷺکی احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے۔ غریبوں / ضرورت مندوں کی مدد کرتے تو کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کس کو کیا دیا ؟ ان کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی کامیابیوں اور ترقی پر بہت زیادہ خوش ہوتے اور وہ خوشی ان کے چہرے پر ظاہر ہوتی ، جب کبھی ہم انہیں بہت زیادہ مسرور دیکھتے تو یہی سمجھتے کہ کوئی غریب طالبعلم یا طالبہ نے امتیازی کامیابی حاصل کی ہوگی کسی کو ایم بی بی ایس ، ایم ڈی ، انجینئرنگ اور دوسرے پیشہ وارانہ کورسس میں مفت نشست حاصل ہوئی ہوگی۔ ظہیر صاحب سے جب بھی بات ہوتی اس گفتگو کا مرکز ملت ، ملت کا بچاو ، مسلمانوںکے دستوری حقوق کا تحفظ ہوتا ۔ ان کا ماننا تھا کہ دیگر ابنائے وطن بالخصوص دلتوں و قبائیل کو بھی اپنے ساتھ لئے چلنا چاہئے ۔ ان کے پاس انسانیت کی سب سے زیادہ اہمیت تھی ۔ ایک مصلح قوم کی طرح ان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ ملت میں بیجا رسومات ، شادیوں میں بے جا اسراف کا خاتمہ ہو ، ہماری شادیاں عین سنت نبی ﷺ کے مطابق انجام پائیں۔ سلف صالحین کی طرح وہ پہلے خود عمل کرتے اور بعد میں دوسروں کو نصیحت کرتے ، ان کی پاکیزہ و شفاف زندگی کا سوال ہے ایسے بہت کم صحافی ہیں جنہوں نے گندی سیاسی شعبدہ بازی کے بازار میں کبھی بھی اپنے ایمان ، اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ، ظہیر صاحب میڈیا کے اس تاریک دور میں یقیناً روشنی کی ایک کرن ، دیانتدارانہ و بیباکانہ صحافت کی علامت تھے ۔ سیاست ان کے ویژن اور مشن کو اسی جوش و خروش اور جذبہ کے ساتھ انشااللہ آگے بڑھائے گا جو ظہیر صاحب کا خاصا تھا ۔ بہرحال ظہیر صاحب کا یہی پیام تھا ۔
بھلائی کرتے رہو بہتے پانی کی طرح