اسمبلی انتخابات اور انڈیا اتحاد

   

میرا دل جل کے بھی تو اک زمانہ ہوگیا ہمدم
یہ آہیں لب پہ رقصاں ہیں بجھے دل کا دھواں کیوں ہو
اسمبلی انتخابات اور انڈیا اتحاد
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ شیڈول جاری کردیا گیا ہے ۔ سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ پانچوں ریاستوں میں کانگریس پارٹی کا بی جے پی سے راست مقابلہ ہے ۔ تلنگانہ میں بی جے پی تاہم مقابلہ میں نہیں رہ گئی ہے اور وہاں کانگریس اور بی آر ایس میں مقابلہ ہے ۔ دوسری ریاستوں میں بی جے پی اور کانگریس میں راست ٹکراؤ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کہیں بھی انڈیا اتحاد کی جماعتیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ کچھ گوشوں سے انڈیا اتحاد کو اسمبلی انتخابات کے دوران گھیرنے اور اس میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ خاص طور پر گودی میڈیا کے اداروں کی جانب سے معمولی سی باتوں کو بھی ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا ان گودی میڈیا اداروں کی جانب سے اظہار کیا جا رہا ہے اور بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی طرح سے انڈیا اتحاد میں اختلافات پیدا کئے جائیں اور کچھ جماعتوں میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے تاکہ انتخابات میں کانگریس کے امکانات کو متاثر کیا جاسکے ۔ کانگریس پارٹی کا جہاں تک سوال ہے تو وہ اس طرح کے ضمنی مسائل پر توجہ دئے بغیر اپنی انتخابی مہم پر توجہ کرتے ہوئے کام کر رہی ہے اور شائد یہی بات بی جے پی کو پریشان کر رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل تمام جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے میں شائد کوئی کمی موجود ہے اور دو ایک جماعتوں میں اختلاف رائے بھی موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سارا انڈیا اتحاد ہی مسائل کا اور انتشار کا شکار ہے ۔ یہ بات سبھی کو تسلیم کرنی ہوگی کہ انتخابات کے موقع پر حلیف جماعتوں میں بھی اختلاف رائے ہوتا ہے بلکہ ایک ہی جماعت کے مختلف قائدین کی رائے بھی مختلف ہوتی ہے ۔ اس کو بنیاد بناکر سارے اتحاد کو گھیرنے کی کوشش کرنا سیاسی بوکھلاہٹ ہی کہی جاسکتی ہے ۔ انتخابات کے موسم میں اس طرح کی بوکھلاہٹ مختلف مواقع پر مختلف جماعتوں میں ضرور دیکھی جاتی ہے ۔
جہاں تک انڈیا اتحاد کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ یہ اتحاد پارلیمانی انتخابات کیلئے تشکیل دیا گیا ہے ۔ اتحاد کے جو اجلاس منعقد ہوئے تھے ان میں ایسا کوئی اتفاق نہیں ہوا تھا کہ جو جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہیں ان کا اتحاد اسمبلی انتخابات میں بھی ہوگا یا ہونا ہی چاہئے ۔ مدھیہ پردیش میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے ۔ عام آدمی پارٹی بھی اپنے طور پر علیحدہ انتخاب لڑ رہی ہے ۔ کانگریس اقتدار کی جناگ میں ان جماعتوں سے کوئی مفاہمت نہیں رکھتی ۔ اسمبلی انتخابات کی صورتحال الگ ہے اور پارلیمانی انتخابات کی صورتحال یکسر مختلف ہوگی ۔ یقینی طور پر اگر ان جماعتوں میں اتحاد ہوتا تو اس کے انتخابی نتائج پر بھی اثرات مرتب ہوتے لیکن جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو وہ اپنے منصوبوں کے مطابق عوامی رائے حاصل کر رہی ہے ۔ اپنے احیاء کی کوششوں کو سنجیدگی سے آگے بڑھا رہی ہے ۔ ایسے میں دوسری جماعتوں سے اتحاد کیلئے دباؤ ڈالنا یا امید کرنا شائد کانگریس کے منصوبوں کے مطابق درست نہیں ہے اسی لئے اس نے کسی جماعت کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت نہیں کی ہے ۔ صرف تلنگانہ میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ کمیونسٹ جماعتوں کے ساتھ کچھ حد تک مفاہمت یا اتحاد ہوسکتا ہے تاہم یہ بھی قطعیت سے کہا نہیں جاسکتا ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ناراضگی کی اطلاعات کو ضرورت سے زیادہ تشہیر فراہم کرتے ہوئے انڈیا اتحاد میں دراڑ پیدا کرنے کی منظم انداز سے کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔
جتنی جماعتیں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں ان میں یہ حقیقت ہے کہ کانگریس موجودہ انتہائی خستہ حالت میں سًب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ رکھتی ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اس کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کی امیدیں کی جا رہی ہیں ۔ دوسری جماعتوں کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے تاہم کانگریس ان سب میں بڑی جماعت رہے گی ایسے میں اگر اسے بی جے پی سے راست ٹکراؤ کا موقع دیا جاتا ہے تو یہ صرف کانگریس کے حق میں نہیں بلکہ سارے انڈیا اتحاد کے حق میں بہتر ہوگا اور اس حقیقت کو اس اتحاد میں شامل تمام ہی جماعتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحمل اور حکمت عملی سے سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔