ملت اسلامیہ کے تنزل اور انحطاط کے بارے میں ہرشخص فکرمند ہے اور روز بہ روز مسلمان قوم میں جو علمی ، عملی ، اخلاقی ، فکری ، معاشی اور معاشرتی زوال آرہا ہے وہ ساری قوم کے لئے پریشان کن ہے ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہم پستی اور نامرادی کے باوجود اپنی زندگیوں میں مست ہیں ، اصلاح کے لئے اقدامات کرنے کی نہ جستجو ہے اور نہ حوصلہ ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ قوم کی اصلاح افراد کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ، جبکہ قرآن مجید نے ایک ہی جملہ اور ایک ہی حکم میں اصلاحِ سماج کے بنیادی نقطہ کو سمجھادیا جو ’’اے ایمان والو ! تم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ ‘‘ ( سورۃ التحریم ؍ ۶)
اصلاحِ نفس اور اصلاحِ خانہ ہر فرد بشر کا فریضہ ہے ۔ اُس سے عہدہ برآ ہونے والا نہیں ہے ، اہل خانہ کی جسمانی نشوونما جس طرح ایک فرد کی ذمہ داری ہے اسی طرح اہل و عیال کی ذہنی نشوونما ، اخلاقی تربیت ، فکری استقرار ، روحانی ترقی ، علمی اور معاشی استحکام کی منصوبہ بندی بھی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے ۔ اولاد ایک امانت ہے ، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے ۔ اس کی قدردانی ، حفاظت اور جامع تربیت ماں باپ کا اولین فرض ہے ۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے : ’’تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں وہ ماخوذ ہوگا‘‘ ۔ (الحدیث)
روز محشر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہر مانباپ سے سوال کرے گا کہ انھوں نے خدا کی عطا کردہ امانت کی صحیح طورپر نشوونما کی ہے یا نہیں ۔ ماں باپ کی قدر و منزلت اور ان کی ذمہ داری کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے ایک سے زائد مرتبہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے فی الفور بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے ۔ اس لئے کہ پرورش کوئی موقتی اور جزوی فریضہ نہیں وہ ایک مسلسل اور ہمہ پہلو قربانی کا نام ہے ۔ دنیا میں احسان کرنے والے بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی ماں باپ کی قربانی اور حسن سلوک کے قریب نہیں پہنچ سکتا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ والدین اور سرپرست اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں یا انھیں کہیں کوتاہی ہورہی ہے ؟
اولاد کی تربیت میں ہر ماں باپ کو چند اُمور پیش نظر رکھنا چاہئے جس کی نشاندہی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں کی ہے ۔ سورۃ الفاتحہ میں اﷲ جل و علا نے اپنی تمام صفات و اسماء میں سے صرف تین مہتم بالشان صفات کا ذکر فرمایا اور ان میں سب سے پہلے جس صفت کا ذکر فرمایا وہ ’’رَبِّ الْعَالَمِيْنَ‘‘ ہے یعنی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سارے جہانوں کارب پالنہار اور پالنے و پرورش کرنے والا ہے ۔
صفت ربوبیت جامع صفت الٰہی ہے اور اسی کا ایک جلوہ ماں باپ کی ذات میں ظاہر ہوتا ہے ’’رب‘‘ کے معنی اور مفہوم یہ ہیں کہ وہ ذات کسی شئی کو دھیرے دھیرے ، آہستہ آہستہ ، بتدریج منزل کمال تک پہنچاتی ہے۔ یعنی پرورش صرف اولاد کو پیدا کردینا ، ان کو گھر فراہم کردینا ، رزق مہیاکردینا ، اسکول میں داخل کروادینا اور موقعہ بہ موقعہ دو چار باتیں نصیحت کی کردینا نہیں ہے بلکہ اولاد کو دینی اور دنیاوی ،جسمانی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے منزل کمال کو پہنچانے تک پیہم جدوجہد کرنے ، مسلسل قربانیاں دینے اور کامل فکر و شعور کا حامل بنانے کے لئے نت نئے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے ۔
سورۂ فاتحہ میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی دوسری اہم صفت ’’اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ‘‘ کو بیان فرمایا ۔ پرورش کے لئے رحمت اور شفقت ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کااندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں ایک صفت رحمت ’’الرحمٰن‘‘ یا ’’الرحیم‘‘ اظہار بیان کے لئے کافی تھی لیکن دونوں رحمت کی صفتوں کو یکجا ذکر کرکے حقیقت کا اظہار فرمایا کہ تربیت بے پناہ رحمت و شفقت کی متقاضی ہے ۔ ہمیشہ عفو ودرگز ، چشم پوشی کی طالب ہے لیکن ساتھ میں تیسری صفت ’’ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘ ذکر کرکے فرمادیا کہ ماں باپ میں شان ربوبیت اور صفت رحمن کے ساتھ اولاد کا محاسبہ اور مؤاخذہ بھی ناگزیر ہے ۔ یعنی وہ یوم جزا کا مالک ہے ۔ ہر وہ نعمت جو اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں دی ہے اس کا محاسبہ اور مؤاخذہ وہ کرنے والا ہے ۔
اسی احساس پر اولاد کی تربیت کرنی چاہئے کہ بچے کو یہ یقین ہو کہ اس کی ایک ایک بات کامحاسبہ ہونے وا لا ہے ، اس کی ایک ایک حرکت اور عمل کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے اور جب یہ احساس قائم ہوجاتا ہے تو وہ دین اور دنیا میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماں باپ کا اولین فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی احساس ذمہ داری پر تربیت کریں تاکہ ان کو اپنے ماں باپ ، بھائی بہن ، بیوی بچے ، عزیز و اقارب ، دوست و احباب ، ملک و قوم ہرچیز کی ذمہ داری کا احساس ہو اور اس کے لئے عملی جدوجہد کرنے والی ہو۔
ماں باپ اپنی اولاد کا بہترین مستقبل چاہتے ہیں اور اس کے لئے انتھک کوششیں کرتے ہیں ، ہزاروں قربانیاں دیتے ہیں لیکن ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اولاد کے سب سے پہلے رہنما ، آئیڈیل اور نمونہ اُن کے ماں باپ ہوتے ہیں ، وہ اُن کی ایک ایک ادا کو غیرشعوری طورپر اپنا لیتے ہیں اس لئے اولاد کو سدھارنے و سنوارنے کے لئے اپنے آپ کو سنوارنا ضروری ہے اور ہم اولاد کی اصلاح کے خواہشمند ہیں لیکن اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں۔ ماں اور باپ کی اخلاقی خرابی ، غیرشائستہ سلوک ، نامناسب برتاؤ ، غیرمہذب زبان کااستعمال ، لڑائی جھگڑا ، غصہ ، برہمی ، لاپرواہی ، غیبت ، حسد ، نفرت ، دوسروں کی تحقیر اور فخر و مباہات ، اسراف یہ ساری خرابیاں اولاد اپنے ہی ماں باپ سے سیکھتی ہیں ۔ اولاد کی صحیح تربیت کے لئے ماں باپ کا اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج ملت کی تباہی میں ماں باپ اور سرپرستوں کا بنیادی رول ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینے سے قاصر ہیں اور وہ قیامت کے دن ضرور ماخوذ ہوں گے ۔