اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا ہے

   

توبہ کو طریقت کے ہر سلسلہ میں مقدم رکھا گیا ہے۔ تمام سلسلوں میں اس کو طریقت کا ’’باب الداخلہ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ توبہ کے بغیر طریقت میں ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے۔ یہی تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس کے بغیر ہر عمل کمزور ہوتا ہے۔ طریقت کے تمام اعمال و اشغال میں استحکام توبہ کی بنیاد ہی قائم ہوکر حاصل ہوتا ہے۔
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا سے ایک شخص نے کہا ’’میں نے بہت گناہ کئے ہیں، میں اگر توبہ کروں تو کیا اللہ تعالی مجھے معاف فرما دے گا؟‘‘۔ حضرت رابعہ نے فرمایا ’’اصل معاملہ یوں نہیں ہے، بلکہ یوں ہے کہ اللہ تعالی تجھے معاف کردے گا تب ہی تو توبہ کرے گا‘‘۔ حضرت رابعہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی تیری توبہ قبول کرکے تجھے معاف کرنا چاہے گا، تب ہی وہ تجھے توبہ کی توفیق دے گا۔ لہذا توبہ نہ کرنا یا توبہ میں تاخیر کرنا بے توفیقی کی علامت ہے اور یہ ایک خطرناک صورت حال ہے، اسی لئے توبہ کی طرف فوری توجہ کرنا چاہئے۔
بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گناہ اس طرح معاف فرما دیتا ہے، جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو، اس کے سارے گناہ نامہ اعمال سے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے، جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو‘‘۔ اللہ تعالی کے اتنے بڑے فضل و کرم کے باوجود اگر ہم توبہ نہ کریں تو اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے۔ گناہوں کے ساتھ ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ گناہ اور ایمان دو متضاد چیزیں ہیں، جو ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب کوئی مؤمن گناہ کرتا ہے تو بوقت گناہ ایمان اس سے نکل کر معلق ہو جاتا ہے اور گناہ کے وقت وہ مؤمن نہیں رہتا۔
واضح رہے کہ عبادت میں لذت بے گناہی سے آتی ہے، اعمال میں نورانیت توبہ ہی سے پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جب تک توبہ نہ کرلی جائے، اس وقت تک نیک اعمال بھی نہ کئے جائیں۔ نہیں نہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے، کیونکہ اعمال توبہ کے بغیر بھی مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن ان اعمال میں نورانیت نہیں آتی، ان اعمال پر گناہوں کی دھول جمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اعمال بالکل ردی معلوم ہوتے ہیں۔ جب کوئی چیز ردی حالت میں ہو تو ظاہر ہے کہ اس حالت میں اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ ایک دھندلا چراغ تاریکی کو مکمل طورپر دور نہیں کرسکتا۔ اعمال گویا چراغ کی ’’لَو‘‘ ہیں۔ لو خواہ کتنی ہی تیز ہو، لیکن چمنی دھندلی ہونے کی وجہ سے وہ لو پوری طرح روشنی نہیں دے گی۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ توبہ کرکے اپنے ایمان کو جلد از جلد مکمل کرلیں اور اپنے اعمال کو پرنور بنالیں، کیونکہ ناقص ایمان کی وجہ سے اعمال میں بھی نقص آجاتا ہے۔ اسی لئے صوفیہ کرام طریقت کی ابتداء ہی میں توبہ کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر توبہ ٹوٹ جائے تو بلاتاخیر دوبارہ توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہو جانا چاہئے، اللہ تعالی ہر وقت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ جب بھی گناہ ہو جائے فوراً توبہ و استغفار کرکے پاک ہو جانا چاہئے، بلکہ گناہ نہ بھی ہو تب بھی توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’میں دن میں ستر بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ حالانکہ حضور معصوم ہیں، لہذا آپﷺ سے کسی گناہ کے سرزد ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ہم گنہگاروں کو کتنی مرتبہ توبہ و استغفار کرنا چاہئے؟ خود ہی سوچیں۔ توبہ بندگی کی زینت ہے، اس سے عبدیت و عبادت میں حسن و نکھار پیدا ہوتا ہے اور بندہ کمال کی طرف ترقی کرتا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر عمل کو مؤثر بنایا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ ہر عمل کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے، گناہ کا اثر احتراق ہے یعنی جلنا، دنیا میں ندامت کی آگ ہے اور آخرت میں دوزخ کی آگ۔ اگر دنیا میں ندامت کی آگ میں نہ جلوگے تو آخرت میں دوزخ کی آگ میں جلنا ہوگا۔ بہرحال جلنا ضروری ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ دنیا میں ندامت کی آگ میں جل جاؤ، تاکہ آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچ سکو۔خوب یاد رکھئے! توبہ کے دو جز ہیں، ایک ندامت یعنی گناہ پر نادم اور شرمندہ ہونا۔ دوسرا جز عزم ہے، یعنی آئندہ ارتکاب گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ۔ بندے کا صرف یہ عزم کرنا ضروری ہے، آگے منزل کا راستہ خود اللہ تعالی دکھاتا ہے۔ یعنی عزم سچا اور پختہ ہو تو منزل کا راستہ خود بخود روشن ہو جاتا ہے۔توبہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر سجدہ ریز ہوکر عرض کرے ’’یا اللہ! اے میرے معبود! اے ارحم الراحمین! میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دو دشمن نفس اور شیطان میرے پیچھے لگے ہوے ہیں، مجھے ان کے حوالے نہ کر، مجھے ان سے بچالے، ورنہ میں تباہ و برباد ہو جاؤں گا۔ مجھ سے جو گناہ سرزد ہو گیا ہے، جس غلطی کا ارتکاب میں کر بیٹھا ہوں، اس کو اپنے فضل و کرم سے معاف کردے۔ تو غفوررحیم ہے، توابٌ رَّحیم ہے، توبہ قبول کرنے کا تیرا وعدہ ہے، میری توبہ کو قبول فرما‘‘۔بچہ غلطی کرکے ماں سے بھاگتا نہیں، بلکہ ماں ہی کی گود میں گھستا اور اسی کے دامن سے لپٹتا ہے۔ اس وقت ماں بچے کو دور نہیں کرتی، دھتکارتی نہیں، بلکہ اپنے سے چمٹا لیتی ہے، اسے گود میں اٹھا لیتی ہے اور پیار کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالی تو اپنے بندے سے ستر ماؤں کی محبت رکھتا ہے، وہ کیوں دور کرے گا۔ وہ بھی تمھیں اٹھا لے گا، اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا، پیار (محبت) کرے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور (توبہ کرکے) پاک ہو جانے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ لہذا خوب روئیں اور گڑگڑائیں۔ اگر رونا نہ آئے تب بھی کم از کم رونے کی صورت بنائیں۔ اللہ تعالی کو گنہگار کی ندامت کے آنسو بہت پسند ہیں، کوئی آواز اللہ تعالی کو اتنی پیاری نہیں لگتی، جتنی استغفار کی آواز۔ یہ آواز جب آسمانوں پر پہنچتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے ’’اے میرے فرشتو! تم گواہ رہنا، میرا بندہ میرے سامنے سجدہ ریز ہے، وہ رو رہا ہے، گڑگڑا رہا ہے، اس سے غلطی ہو گئی ہے، وہ مجھ سے معافی مانگ رہا ہے، تم گواہ رہو کہ میں نے اسے معاف کردیا‘‘۔ اللہ تعالی ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) (اقتباس)