ہم نہ موسیٰ ہیں نہ فرعون کا لشکر پیچھے
پھر بھی چڑھتے ہوئے دریا میں اترجاتے ہیں
انڈیا بمقابلہ این ڈی اے
ملک میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اب صفیں بنتی جا رہی ہیں۔ انتخابی مقابلہ کو ایک طرح سے انتہائی دلچسپ بناتے ہوئے اسے انڈیا بمقابلہ این ڈی اے ‘ انڈیا بمقابلہ نریندر مودی کا نام دیا جا رہا ہے ۔ در اصل آج ملک میں اقتدار کے دعویدار دو اہم گروپس کے اجلاس منعقد ہوئے ۔ ایک اجلاس جنوبی ہند میں کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کا منعقد ہوا تو ملک کے دارالحکومت دہلی میں برسر اقتدار این ڈی اے کا اجلاس منعقد ہوا ۔ اپنے اپنے اتحاد کو کامیاب اور موثر دکھانے کیلئے ہر گروپ نے کوشش کی ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے آپسی اتحاد کی کوششیں گذشتہ چند ماہ سے چل رہی تھیں۔ بہار میں ایک اجلاس پہلے بھی منعقد ہو چکا تھا اور پٹنہ اجلاس کے بعد سے بی جے پی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی اور یہاں بھی عددی طاقت کو دکھانے کے مقصد سے بی جے پی نے زیادہ سے زیادہ جماعتوں کوا پنے اتحاد میںشامل کرنے پر توجہ مرکوز کی ۔ اس کے قائدین فوری حرکت میں آئے اور انہوں نے نئی جماعتوں کو این ڈی اے میں شامل کرنے پر توجہ مرکوز کردی ۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں میں انحراف کرواتے ہوئے انہیں بھی این ڈی اے کا حصہ بنایا گیا ۔ جو لوگ این ڈی اے سے ترک تعلق کرچکے تھے ان کی بھی منت سماجت کرتے ہوئے واپس اپنے ساتھ شامل کرلیا گیا ۔ اس کی مثالیں او پی راج بھر اور چراغ پاسوان کی ہیں جو 2019 کے بعد سے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے سے علیحدہ ہوگئے تھے ۔ اپوزیشن نے اپنے پٹنہ اجلاس کو آگے بڑھاتے ہوئے بنگلورو میں اجلاس منعقد کیا اور تمام شریک جماعتوں کی اتفاق رائے سے ایک نئے اتحاد کا اعلان کیا گیا جس کا نام انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ اجتماعی اتحاد رکھا گیا ہے جسے ’ انڈیا INDIA ‘ کہا جائیگا ۔ اب انتخابات میں مقابلہ انڈیا بمقابلہ این ڈی اے اور انڈیا بمقابلہ نریندر مودی کا نعرہ دیا جائیگا ۔ یہ نعرہ انتخابات میں انتہائی دلچسپ ہوسکتا ہے کیونکہ بی جے پی اور این ڈی اے کی جانب سے اس اتحاد کو نشانہ بنایا جانا یقینی ہے ۔ ابھی سے اس اتحاد کو بھانامتی کا کنبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔
اپوزیشن اتحاد نے حالانکہ ملک کی سیاست کے اعتبار سے اپنے محاذ کیلئے جو نام اختیار کیا ہے وہ قدرے مختلف کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا جو مخفف ہے وہ انتہائی دلچسپ کہا جاسکتا ہے ۔ ایک طرح سے اپوزیشن اتحاد نے بی جے پی کے قوم پرستی کے نعرہ کا اثر ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی اب اپوزیشن اتحاد کو اگر نشانہ بناتے ہوئے ہے تو اسے انڈیا کی مخالفت سے تعبیر کیا جائیگا ۔ اپوزیشن نے اس نام سے استفادہ کی کوشش شروع بھی کردی ہے اور اسے ہندوستان کے حقیقی معنی سے تعبیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دو اپوزیشن کا جو ’ انڈیا ‘ ہے وہ ملک کے حقیقی تصور کو پیش کرتا ہے ۔ ملک کے دستور کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے ۔ ایسے ہندوستان کی تصویر پیش کرتا ہے جہاں سب کیلئے مساوی مواقع ہوں اور آمریت نہ ہو۔ اپوزیشن کا دعوی ہے کہ وہ اپنے اتحاد کے ذریعہ سارے ملک کے عوام کی آواز اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ چونکہ اپوزیشن کی جانب سے ملک کی آواز کو بلند کرنے کا مقصد ہے اسی لئے اس محاذ یا اتحاد کا نام ’ انڈیا ‘ رکھا گیا ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد پہلے ہی سے موجود ہے تاہم اس میں نئی جماعتوں کو شامل کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم جو جماعتیں اس میں شامل ہو رہی ہیں ان کا سیاسی وجود کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے ۔ یہ جماعتیں ملک کو درپیش مسائل یا عوام کیلئے نہیں بلکہ اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے این ڈی اے کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کو قطعیت دینے کیلئے جو کوششیں چند ماہ قبل شروع ہوئی تھیں وہ اب ایک مرحلہ کو پار کرچکی ہیں۔ اس مرحلہ کے بعد یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ آئندہ انتخابات کا ماحول انتہائی دلچسپ اور فیصلہ کن ہوسکتا ہے ۔ ہر محاذ خود کو ملک کا حقیقی نمائندہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ حقیقی معنوں میں عوام کی آواز اٹھانے کا دعوی کر رہا ہے ۔ حقیقی ہندوستان کی تصویر پیش کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ملک کے عوام کے سامنے اب ذمہ داری ہے کہ وہ ہر محاذ کی حقیقت اور سچائی کو سمجھیں اور اس محاذ کی تائید کریں جو حقیقی معنوں میں ملک اور ملک کے عوام کی نمائندگی کرتا ہو ۔ حقیقی معنوں میں عوام اور ان کے مسائل کو سمجھتا ہو اور انہیں حل کرنے کے معاملہ میں واقعی سنجیدگی سے کام کرتا ہو۔