نئی دہلی۔کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے ائی ایم ائی ایم) صدر اسد الدین اویسی ایک اور (محمد علی) جناح بننے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کا واحد ایجنڈہ ملک کی ایک او رتقسیم ہے‘ لوک سبھا ایم پی اور اترپردیش بی جے پی کے جنرل سکریٹری سوبرات پاٹھک نے یہ بات کہی ہے۔
کننوج سے لوک سبھا حلقہ کی نمائندگی کرنے والے ایم پی پاٹھک نے ائی اے این ایس کو دئے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں دعوی کیاکہ لوگوں نے میدان پر وزیراعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے ساتھ ایک اتحاد کرلیاہے۔
انہوں نے کہاکہ ”ائے گا تو یوگی ہی“۔پاٹھک نے کہاکے اس سے قبل قائدین جو نماز کی ٹوپی پہن کر مدرسہ جاتے تھے اب ہندو بن گئے ہیں اور ماتھے پر ’تلک‘ لگاکر مندروں پر اپنی امیدشروع کردی ہے۔
پاٹھک نے استفسار کیاکہ ”اگر بی جے پی ہندوتوا کامسئلہ نہیں اٹھائے گی تو پھر کون اٹھائے گا“۔انہوں نے دعوی کیاکہ سماج وادی پارٹی(ایس پی) او ربہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) مجوزہ اسمبلی انتخابات میں اترپردیش کے اندر دوسرے مقام کے لئے جدوجہدکررہے ہیں۔
انٹرویو کے کچھ اقتباسات
سوال۔ اگلے سال اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کن مسائل پر عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائے گی؟۔
جواب۔ ہمارے ایجنڈہ او رمسائل عوامی سائیڈ پر ہیں اورآپ سب جانتے ہیں۔
بی جے پی اپناایجنڈہ پوشیدہ نہیں رکھتی ہے۔ہم ترقی کے مسائل پر ووٹ مانگتے ہیں۔ ترقی کے تمام پیمانوں پر پچھلے پانچ سالوں میں اترپردیش اترا ہے جو سابق کی ایس پی اور بی ایس پی حکومتوں میں لاپتہ تھا۔
بی جے پی دوبارہ الیکشن دو کلیدی ایجنڈوں پر چاہتی ہے ایک ترقی اور دوسرا اترپردیش کی تہذیبی شناخت کی بحالی ہے۔ بی جے پی حکومت ایودھیا میں ایک عالیشان رام مندر تعمیرکررہی ہے’کاشی وشواناتھ کواریڈار کے ذریعہ کاشی کی اہمیت کا بحال کیاہے۔
جب مہاتما گاندھی بنارس ہندو یونیورسٹی(بی ایچ یو) کے لئے کاشی کا دورہ کیاتھاتو انہوں نے شہر کی خراب حالت اور صفائی پر سوال کیاتھا۔ آزادی کے بعد بھی حالات میں سدھار نہیں آیاتھا۔
بی جے پی حکومت نے فیصلہ کیاکہ شہر کی شناخت کو ”مایہ ناز اور روحانی“ کاشی بنانے کے لئے اس کی تہذیبی شناخت کوبحال کرے گی۔مستقبل میں ہم ماتھرا کی تہذیبی شناخت کو بھی بحال کریں گے۔
ہماری حکومت نے خوشی نگر میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ بنایا‘ جہاں پر گوتم بدھا نے ’مہاپرینروانا‘ میں شرکت کی تھی‘ وہیں ریاست کی تہذیبی شناخت کو بھی ہم نے بحال کیاہے جہاں پر ہم رام او ربدھا دونوں کو یاد کرتے ہیں۔
لوگوں نے ہمارا کام دیکھا ہے اورہم ترقی کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
سوال۔ اس سے قبل ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریا نے بھی ماتھرا میں ایک عالیشان مندر کی تعمیر کی تیاری کی بات کہی تھی اور اب آپ بھی ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔
تو کیاماتھرا مذکورہ اسمبلی انتخابات کا اہم موضوع ہوگا؟۔
جواب۔ بی جے پی کے لئے ماتھرا ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے او رنہ ہی ایجنڈہ ہے۔ مجھے بتائیں کون ہے جو ہمیں ہندوعقائد کی نشانیوں کو بحال کرنے سے روکے گا۔
اس کا انتخابات سے کوئی لینادینا نہیں ہے ماتھرا میں مندروں کی تعمیر ہمارے عقیدے اور ایمان سے جڑا ہے اور اس کو ہم پورا کریں گے
سوال۔ آ پ سمجھتے ہیں کہ سینئر قائدین کی جانب سے اس طرح کا تبصرہ انتخابات کارخ ترقی سے مذہب کی طرف جوڑدے گا اور پولرائزیشن کی سیاست ہوگی؟۔
جواب۔ پولرائزیشن کا کیامطلب ہے؟۔ ہندتوا کے متعلق بات کرنا کیا غلط ہے۔ پچھلے 70سالوں میں آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوں کی آبادی تین کروڑ سے 30کروڑ ہوگئی ہے۔
تقریبا27فیصد ہندو آبادی پاکستان سے اسی وقت کے دوران غائب ہوگئی۔ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر ہندوستان کے مستقبل کے حالات کا اندازہ کریں۔ہندوتوا ایک موضوع کیوں نہیں ہے؟ یہ ہماری تہذیب او ردنیاکے سب سے قدیم میں سے ایک ہے۔
جب دنیابھر کی تہذیبیں ایران سے گریس تک اور مصرف تک گری گئی ہیں صرف ہندوتوا کی بنیاد پر ہندوستانی تہذیب ہی اس وقت میں باقی رہ گئی ہے۔
اگر انتخابات میں بات نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ قبل ازیں کی جنگیں تہذیب اور مذہب کو بچانے کے لئے لڑی گئی ہیں۔ آج الیکشن ایک ’جنگ‘ ہے اور اگر ہم ہندوتوا کی بات نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
اس سے قبل جو قائدین ٹوپیاں لگاکر مدرسہ جایاکرتے تھے وہ اب ہندو بن گئے ہیں اور ماتھے پرتلک لگاکر مندروں کے چکر کاٹنا شروع کردیاہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ’روزافطار‘ کا وزیراعظم اور چیف منسٹر کو اہتمام کرتے ہوئے۔
آج ہمارے پاس ایک وزیراعظم ہے جوایودھیا آتے ہیں اور پشو پتی ناتھ کے قدیم مندر کوجاتے ہیں‘ کاشی وشواناتھ مندرمیں رودرا بھیشکا کرتے ہیں اور گنگا آرتی میں حصہ لیتے ہیں‘ کیدر ناتھ کو دوبارہ ترقی دلاتے ہیں۔
سوال۔ اے ائی ایم ائی ایم اسد الدین اویسی اترپردیش میں اپنی سیاسی شروعات کررہے ہیں اور انہوں نے این آر سی‘ سی اے اے کو واپس لینے کی مانگ کی ہے۔ آپ کیاکہتے ہیں؟۔
جواب۔ جمہوریت میں ہر ایک پارٹی کوالیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے اور اویسی اپنی پارٹی کو قومی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اترپردیش میں مقابلے کے لئے ان کا خیر مقدم ہے۔
وہ ’تعصب‘ پھیلارہے ہیں اور اترپردیش میں اس کوپھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اویسی ایک اورجناح بننے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کا واحد ایجنڈہ ہے‘ ملک کی ایک اورتقسیم تاکہ اپنے ایجنڈہ کو پورا کرسکیں۔ہمارا ایجنڈہ واضح ہے اور ہم اس طرح کے تقسیم کے ایجنڈے کو کچل دیں گے اور ہم ایسا کررہے ہیں۔
سوال۔ آپ سمجھتے ہیں کہ تین زراعی قوانین سے دستبرداری بی جے پی کے لئے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں فائدہ مند رہے گی؟۔
جواب۔ مہربانی کرکے سمجھیں۔ وہ کسانوں کا احتجاج نہیں ہے۔ وہ مودی مخالفین کا احتجاج ہے اور وہ سی اے اے‘ تین طلاق‘ رام مندر سے کاشی وشواناتھ کواریڈار ہر چیز کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔
ان کا واحد ایجنڈہ مودی کی مخالفت ہے اور جب وہ مودی کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ مخالف قوم بن جاتے ہیں۔اپنے مخالف مودی موقف کودیکھانے کے لئے انہوں نے کسانوں کا کاندھے کااستعمال کیاہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سرحد ی رحاست پنجاب دہشت گرد سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اورمخالف قوم عناصر نے کسانوں کے احتجاج میں شمولیت اختیار کی ہے۔
مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ ایسا لگ رہا ہے کہ بعض کسان ہماری کوششوں کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ کسانوں کی بہتری کے لئے ہم اپنے کام کو جاری رکھیں گے اوراس میں بہتری لائیں گے۔
سوال۔کیاایس پی آر ایل ڈی اتحاد مغربی اترپردیش میں بی جے پی کے موقع کو کم کردے گا۔
جواب۔ اس سے قبل بی ایس پی نے ان کے ساتھ ایساکیاتھا اور ساتھ ملکر لڑے۔ وہ فیصلہ نہیں کریں گے‘ عوام فیصلہ کرے گی۔
انہوں نے ایک میز پر اتحاد قائم کیاہے وہیں عوام نے پہلے ہی ایک اتحاد میدان میں کردیاہے۔ تمام طبقات‘ گروپ اورمذہب نے وزیراعظم نریندر مودی اورچیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔
ائے گاتو یوگی ہی ائے گا۔
بوا‘ بھتیجا کا یوپی میں کوئی اثر نہیں ہوگا
سوال۔ اترپردیش میں بی جے پی اہم اپوزیشن کون ہے؟
ہمارے لڑائی کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ مذکورہ ایس پی اور بی ایس پی دوسرے نمبر ک لئے لڑائی کررہے ہیں۔ ہم جیت کی طرف گامزن ہیں اور ایک غیرمقدس اتحاد برائے حزب اختلاف ہمیں روک نہیں سکے گا