اللہ تعالی نے حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فضیلتِ اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی ہے، جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہاں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا، کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شرف نہیں بخشا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’پاک ہے جو لے گیا اپنے (خاص) بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف، جس کے آس پاس ہم نے (بہت) برکت نازل فرمائی، تاکہ ہم (اپنے) اس (بندۂ خاص) کو اپنی قدرت کی خاص نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل)
اگرچہ عام استعمالات میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس تمام مبارک سیر و عروج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں اور لامکاں تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے، لیکن محدثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا ’’اسراء‘‘ کہلاتا ہے، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس کو لفظ ’’اسراء‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے، اس لئے کہ اس کے لئے معراج اور عروج کے الفاظ احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ فارسی میں فرماتے ہیں، جس کا اردو میں خلاصہ یہ ہے کہ ’’(مسجد حرام سے) بیت المقدس تک اسراء ہے، وہاں سے آسمانوں تک معراج ہے اور آسمانوں سے مقام قاب قوسین تک اعراج ہے‘‘۔ (فوائد الفوائد۔۳۰۸)
اللہ تعالی نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ سبحان سے شروع فرمایا، جس کا مفاد اللہ تعالی کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعات معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف سے جس قدر اعتراضات ہو سکتے تھے، ان سب کا جواب ہو جائے۔ مثلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی‘‘ کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔ اللہ تعالی نے لفظ سبحان فرماکر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لئے بھی ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کمزوری ہوگی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں۔ اسی حکمت کی بناء پر اللہ تعالی نے ’’اسراء‘‘ فرمایا، جس کا فاعل اللہ تعالی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانے والا نہیں فرمایا، بلکہ اپنی ذات مقدسہ کو لے جانے والا فرمایا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے لفظ سبحان اور اسراء فرماکر معراج جسمانی پر ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کو اعتراضات سے بچایا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ ’’اے منکرو! خبردار! واقعہ معراج میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کا تمھیں کوئی حق نہیں، اس لئے کہ اس نے معراج کرنے اور مسجد اقصیٰ یا آسمانوں پر خود جانے کا دعویٰ نہیں کیا، ایسی صورت میں تمھیں اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟۔ یہ دعویٰ تو میرا ہے کہ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گیا، یہ لے جانا اور ذرا سی دیر میں آسمانوں کی سیر کراکے واپس لے آنا تو ممکن نہیں، لیکن یاد رکھو کہ میں سبحان ہوں، جو چیز مخلوق کے لئے عادتاً ناممکن اور محال ہے، اگر میرے لئے بھی اسی طرح محال اور ناممکن ہو تو میں عاجز اور ناتواں ٹھہروں گا اور عاجزی و ناتوانی عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں‘‘۔ معلوم ہوا کہ آیت اسراء کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔
اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں نہ اپنا نام لیا اور نہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا، اپنی ذات پاک کو ’’اَلَّذِیْ‘‘ اور اپنے حبیب کو ’’عبدہ‘‘ سے تعبیر فرمایا۔ ’’الذی‘‘ اسم موصول ہے، جس کے معنی ہیں ’’ذات‘‘۔ یہ ایسا لفظ ہے کہ ہر چیز پر اس کا اطلاق کرسکتے ہیں اور ہر چیز کو ’’الذی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ’’عبد‘‘ بھی ایسا لفظ ہے کہ اللہ تعالی کے سواء ہر شے عبد ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے حبیب دونوں کے لئے ایسا لفظ ارشاد فرمایا، جو تمام ممکنات کو حاوی ہے۔ ہر شے ’’الذی‘‘ ہے اور ہر چیز عبد ہے، گویا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ’’الذی‘‘ تو ہر چیز ہے، لیکن جس کو کامل ’’الذی‘‘ کہا جاسکے وہ وہی ہے جو اسراء کا فاعل ہے۔ کیونکہ ’’الذی‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ ذات‘‘ اور ظاہر ہے کہ کمال ذات، وجوب ذاتی، الوہیت اور قدرت کاملہ کے بغیر متصور نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ واجب بالذات، معبود برحق اور قادر مطلق اللہ تعالی کے سواء کوئی نہیں، لہذا کامل ’’الذی‘‘ صرف اللہ تعالی ہے اور کمال کی دلیل اسراء ہے، کیونکہ معراج کو لے جانا قدرت کاملہ کے بغیر محال ہے اور قدرت کاملہ جس کے لئے ہوگی معبود برحق وہی ہوگا اور معبود برحق کے لئے وجوب ذاتی لازم ہے اور وجوب ذاتی ہی ’’الذی‘‘ کا کمال ہے۔ لفظ ’’الذی‘‘ دال ہے اور ذات کاملہ اس کا مدلول ہے۔ دال کا تمام کائنات کو حاوی ہونا اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ مدلول ہر ذرہ کائنات کو بالذات محیط ہے۔
علیٰ ہذ القیاس ’’عبد‘‘ بھی ہر چیز ہے۔ اللہ تعالی کی تمام مخلوق اس کی عبد ہے، لیکن جس کو تمام عباد کاملین میں سے سب سے زیادہ کامل اور عبد اکمل کہا جاسکے، وہ وہی ہے جو اسراء کا مفعول بہ ہے اور جسے آیت اسراء میں ’’عبدہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی دلیل بھی یہی لفظ اسراء ہے، جس کا مفعول بہ یہی عبد مقدس ہے، کیونکہ عبدہ کے معنی ہیں ’’اللہ کا بندہ‘‘ اور اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا کمال اللہ تعالی کا قرب اور اس کی نزدیکی ہے۔ اسراء اور معراج میں اس عبد مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا جو قرب نصیب ہوا اور مرتبہ قاب قوسین کی جو نزدیکی حاصل ہوئی، وہ اولین و آخرین میں سے آج تک نہ تو کسی کو حاصل ہوئی ہے، نہ ہوگی اور نہ ہو سکتی ہے، لہذا اللہ تعالی کے جملہ عباد میں عبد کامل صرف ’’عبدہ‘‘ ہے اور بس!۔
حاصل کلام یہ کہ جس طرح ’’الذی‘‘ سب ہیں مگر کامل ’’الذی‘‘ (واجب الوجود) صرف اللہ تعالی ہے، اسی طرح عبد سب ہیں، مگر کامل عبد صرف حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لفظ عبد دال ہے اور کامل فی العبودیت (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) مدلول۔ دال کا تمام عالم کو حاوی ہونا اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ مدلول تمام موجودات عالم کو (بالعطاء) محیط ہے۔ (وَما ارسلناک الا رحمۃً للعالمین)
’’الذی‘‘ اور ’’عبدہ‘‘ دونوں میں ابہام ہے اور یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کن حسن ذات تمام کائنات سے ابہام میں ہے، اسی طرح ذات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن بھی نگاہ عالم سے مبہم اور پوشیدہ ہو۔ پھر ’’انہٗ ھو السمیع البصیر‘‘ میں چوں کہ ضمیر ’’ھو‘‘ کا مرجع ’’الذی‘‘ اور عبد دونوں ہو سکتے ہیں۔ (روح المعانی)
’’مقام عبدیت‘‘ قرب الہی کا وہ بلند ترین مقام ہے، جہاں بندہ اپنے تعینات کو معدوم پاکر جلوہ معبود میں محو ہو جاتا ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے اس موقع پر ’’رسولہ‘‘ اور ’’نبیہ‘‘ نہیں فرمایا، بلکہ ’’بعبدہٖ‘‘ فرمایا۔ معراج کے بیان میں ’’عبدہ‘‘ فرماکر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمادیا کہ باوجود اس قرب عظیم کے جو شب معراج میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا، وہ میرے عبد ہی ہیں، معبود نہیں۔ اللہ تعالی نے ’’اسریٰ بعبدہ‘‘ فرمایا اور عبد کو ضمیر مجرور کی طرف مضاف کیا، جو اللہ تعالی کی طرف لوٹتی ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ ’’میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم عام عباد کی طرح عبد نہیں، بلکہ وہ عبد خاص ہیں، بلکہ عبد نہیں ’’عبدہ‘‘ ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے:
عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
اُو سراپا انتظار ایں منتظر
اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں، اس کے باوجود لفظ اسراء کے بعد ’’لیلاً‘‘ فرمایا، تاکہ ظاہر ہو جائے کہ معراج تمام رات نہیں ہوئی، بلکہ رات کے بہت تھوڑے حصہ میں ہوئی ہے۔ مسجد حرام مکہ مکرمہ کی وہ مبارک مسجد ہے، جس کے وسط میں بیت اللہ شریف واقع ہے۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی وہ مشہور مسجد ہے، جو انبیائے سابقین علیہم السلام کا مرکز رہی ہے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام و محبوبین باری تعالی کی ذوات قدسیہ سے جو برکتیں اس خطۂ پاک کو حاصل ہوئیں، اللہ تعالی نے ’’بارکنا حولہٗ‘‘ فرماکر ان ہی کا اظہار فرمایا ہے۔ اللہ تعالی نے ’’بارکنا حولہ‘‘ فرمایا، اس لئے کہ ارد گرد برکتیں ہیں، اس کے اندر تو یقیناً عظیم و جلیل برکتیں ہوں گی۔ خلاصہ یہ کہ ’’فیہ‘‘ فرمانے سے اندر کی برکتیں ثابت ہو جاتیں، لیکن ارد گرد کا ثبوت نہ ہوتا، جب کہ ’’حولہٗ‘‘ فرمانے سے اس کے اندر اور باہر سب جگہ کی برکتیں ثابت ہو گئیں۔ (اقتباس)