گذشتہ ہفتے سیاسی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کی این سی پی سربراہ شرد پوار سے تقریبا چار گھنٹوں کی ملاقات کے بعد مختلف قیاس آرائیاںآئندہ عام انتخابات کیلئے شروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ آئندہ عام انتخابات کو اب بھی تین سال کا وقت باقی ہے تاہم پرشانت کشور کی شرد پوار سے ملاقات کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ غیر کانگریسی اپوزیشن جماعتوں نے ابھی سے در پردہ تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حالانکہ خود پرشانت کشور کا کہنا ہے کہ انہوں نے شرد پوار سے اظہار تشکر کیلئے ملاقات کی تھی کیونکہ پوار نے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں ممتابنرجی کی تائید کی تھی جن کیلئے پرشانت کشور حکمت عملی بنانے کا کام کر رہے تھے ۔ پرشانت کشور نے بنگال اسمبلی انتخابات میں ممتابنرجی کی کامیابی کے بعد یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ اب سیاسی حکمت عملی کا کام کرنا ترک کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کیلئے دوسروںکو موقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ دوسرا کام اپنے لئے منتخب کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تاہم شرد پوار سے ان کی ملاقات اور اس کے دورانیہ نے الگ ہی قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ شرد پوار آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کے ایک مشترکہ چہرے کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے وہ سب سے ٖپہلے غیر کانگریسی جماعتوںکو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میںممتابنرجی نے نریندرمودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو شکست سے دوچار کیا ہے اس نے ممتابنرجی کا سیاسی قد اور بھی بڑھا دیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ ممتابنرجی کو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کو چیلنج کرنے والے چہرے کے طورپر پیش کریں۔ اس سلسلہ میں جب ممتابنرجی سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس پر ابھی سے کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا ۔ فی الحال کورونا کی لڑائی لڑنا ہے ۔ اس کے بعد سیاسی حکمت عملی پر بات کی جائیگی ۔ اس طرح ممتابنرجی نے خود بھی اس امکان کو مسترد نہیں کیا تھا کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار کے طور پر میدان میں آسکتی ہیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ ابھی قبل از وقت ہی ہے لیکن یہ کہا ضرور جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی حکمت عملی پر کام شروع ہوچکا ہے ۔
جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ان کے مطابق اپوزیشن اتحاد پرشانت کشور کے اشتراک سے ایسی حکمت عملی بنانا چاہتا ہے جس کے تحت اسے 400 نشستوں پر مستحکم موقف حاصل ہو اور مرکز میںا قتدار اس کے حصے میں آئے ۔ کہا جا رہا ہے کہ شرد پوار نے بی جے پی کے خلاف اتحاد کیلئے در پردہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جتنی غیر کانگریسی اپوزیشن جماعتیں ہیں جو این ڈی اے کا حصہ نہیں ہیں ان سب کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور اسی لئے پرشانت کشور کو کسی اور ریاست کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ابھی سے مرکزی سطح پر منصوبہ تیار کرنے اور حکمت عملی بنانے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ پرشانت کشور کی ریاستی انتخابات سے دوری سے بھی یہ قیاس آرائیاں تقویت پاتی ہیں کہ قومی سطح پر اپوزیشن کو ایک موثر پلیٹ فارم فراہم کرنے کیلئے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ بنگال میں ممتابنرجی مستحکم ہیں ‘ ٹاملناڈو میںڈی ایم کے اتحاد کو عوامی تائید حاصل ہے ۔ بہار میں وہ آر جے ڈی کو اور اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کو متحرک کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اوڈیشہ میں بی جے ڈی کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے ۔ مہاراشٹرا میں خود این سی پی اور شیوسینا کی طاقت بھی خاطر خواہ ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی علاقائی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے ابھی سے کوئی باضابطہ پلیٹ فارم نہیں بنایا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی حکمت عملی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور پس پردہ اور خاموش سرگرمیوں کے ذریعہ کئی قائدین کو ہمنوا بنانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔
پرشانت کشور اظہار تشکر کیلئے مختلف قائدین سے ملااقاتوں کے دوران ان کی رائے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شرد پوار بھی اپنے تجربہ تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی مناسب وقت پر باضابطہ سرگرمیوں کا اعلان کرسکتے ہیں۔ غیر کانگریسی علاقائی جماعتوں کا اشتراک ہی شرد پوار اور پرشانت کشور کا ایک نکاتی ایجنڈہ ہوسکتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پرشانت کشور اب کسی ریاست پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے قومی منظر نامہ کا جائزہ لینے میںزیادہ وقت صرف کرینگے ۔ مرکزی حکومت کی ناکامیوںکا جائزہ لیںگے ۔ اپوزیشن کے رد عمل کا تعین کرینگے اور عوام کے موڈ کو اور ان کے احساسات کو دیکھتے ہوئے علاقائی سطح پر علیحدہ حکمت عملی کا تعین کرنے کیلئے کام کرینگے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ قبل از وقت کوششیں کس حد تک ثمر آور ہوسکتی ہیں۔
