بھوپال۔ مدھیہ پردیش میں شراب ایک سیاسی موضوع بنانے کے بعد ریاست میں مذکورہ برسراقتدار بی جے پی کو اپوزیشن سے زیادہ بھگوا پارٹی کے اپنے قائدین کی جانب سے اس معاملے پر شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت والی حکومت پر تنقیدوں کے متعلق سوالات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔
شعلہ بیان بی جے پی لیڈر او رسابق مرکزی وزیراوما بھارتی شراب کی دوکانوں کی قریب اور جنگلات میں ڈیرے ڈال کر شراب فروخت کرنے کے انتظام کے خلاف 7نومبر کے روز احتجاجی دھرنے دے رہی ہیں۔دیگر بی جے پی قائدین بھی گاؤں میں شرات کی فروخت پر حکومت پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی میں مصروف ہیں۔
مجوزہ اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے درمیان میں ریاست میں شراب کے اردگرد سیاست تیز ہوگئی ہے۔ سابق چیف منسٹر اومابھارتی نے اپنے موقف پر اسی طرح قائم ہیں جس طرے وہ اپریل2022میں شراب پالیسی کے نفاذ کے وقت جارحانہ تیور اختیار کئے ہوئے تھیں۔
انہوں نے شراب کی دوکانوں پر گائے کاگوبر اور پتھر پھینک کر اپنی ناراضگی کا اظہار کردیاتھا۔ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی لانے اور عوام میں شعور بیداری مہم چلانے کا بھروسہ دلانے کے باوجود بھارتی اپنے احتجاجی کو جاری رکھی ہوئی ہیں۔
چیف منسٹر کے ساتھ ریاست کی آبکاری پالیسی پر بات چیت کے دوران بھارتی نے کہا کہ تعلیمی اداروں اور مذہبی مقامات سے ایک کیلومیٹر کے رقبہ میں شراب کی دوکانیں قائم نہیں کی جانی چاہئے۔
انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ شراب خانوں او رپبس سے باہرآنے والوں کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں تاکہ وہ اپنے گھر وں تک آسانی کے ساتھ پہنچ جاسکیں۔ درایں اثناء بی جے پی کے سینئر لیڈر اورسابق وزیر اجئے وشنوائی نے بھی اس موضوع پر چیف منسٹر کو سوالات کے گھیرے میں لئے ہے۔
وشنوائی نے الزام لگایاکہ گاؤں میں شراب فروخت ہورہی ہے اور دوکانوں کے باہر شراب کی فروخت پر روک لگانے کے لئے سیاسی مرضی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے دعوی کیاکہ شراب کی فروخت پر ایک روک لگانا بی جے پی کے تمام بوتوں میں 100ووٹوں کا اضاضہ کریگا۔
درایں اثناء اپنی ”سنیاسی زندگی“ کے 30سال کی تکمیل پر ٹوئٹ کرتے ہوئے اوما بھارتی نے کہاکہ ”وہ ڈسمبر میں مدھیہ پردیش کے مذہبی گاؤں امر کانٹک جانے کا منصوبہ بنارہی ہیں“۔
اس پر طنز کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کانگریس لیڈر نریندر سالوجا نے ٹوئٹ کیاکہ ”آپ کے نئے شیڈول کی تشریح کیسے کی جائے گی‘ کیاآپ نے شراب سے پاک ایم پی کے لئے اپنی جنگ پر یوٹرن لیاہے یااس معاملے پر حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتاکیاہے؟“۔