آج دل میں فروغ پاتا ہے
جذبِ ایثار و جوشِ قربانی
ایودھیا مسجد شریعت کا مسئلہ
ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ معلق ہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا کے تعلق سے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے بعد رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگئی لیکن عدالت نے بابری مسجد کے تعلق سے متبادل اراضی الاٹ کرنے کا فیصلہ کر کے اس تنازعہ کو برقرار رکھا ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان نے ایودھیا میں الاٹ کردہ 5 ایکڑ اراضی پر مسجد کی تعمیر کو شریعت اور وقف ایکٹ کے مغائر بتایا ہے ۔ گذشتہ سال سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ایودھیا میں تعمیر کی جانے والی مسجد وقف ایکٹ کے خلاف ہے تو مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس تعلق سے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایودھیا کی مسجد کی تعمیر کے لیے تشکیل شدہ ٹرسٹ کے سکریٹری نے یہ واضح کیا کہ ہر کوئی شریعت کی اپنی تشریح کرتا ہے اور جب سپریم کورٹ کی ہدایت پر زمین الاٹ ہوتی ہے تو وہ غیر قانونی ، ناجائز یا شریعت کے مغائر کس طرح ہوسکتی ہے ۔ حکومت کے دباؤ میں آکر ان دنوں بڑے سے بڑے ادارے ایسے کام انجام دے رہے ہیں جو نہ صرف اس ملک کے دستور ، جمہوریت ، اصول اور سماجی تقاضوں کے خلاف ہوتے ہیں ۔ بابری مسجد کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے سب سے اہم اور ایمان کے جذبہ کو ٹھیس پہونچانے والا ہے ۔ جب مسلمانوں نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طویل عرصہ تک احتجاج کیا اور حکومتوں نے اس مسجد کی شہادت کو رکوانے کے وعدے کئے اور شہادت کے بعد مسجد کی دوبارہ تعمیر کے لیے بھی حکومت کی سطح پر بھروسہ دیا گیا لیکن 27 سال کے بعد بابری مسجد کے بارے میں عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے لیے شدید صدمہ خیز ثابت ہوا ۔ اب جب کہ بابری مسجد کی تعمیر کے لیے حکومت اپنے وعدوں سے منحرف ہوچکی اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے تو مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کے بیانات بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کے لیے معاون ثابت نہیں ہوں گے ۔ اس کے لیے ایک صبر آزما قانونی لڑائی لڑنے کے بعد جو فیصلہ آیا ہے اس پر اعتراضات اور ادعاجات داخل کرنے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی ضرورت تھی ۔ لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایودھیا کے علاقہ دھان پور میں الاٹ کردہ اراضی پر تعمیر کی جانے والی مسجد کو ناجائز ، غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دے کر اس تعلق سے نئی بحث شروع کردی ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے پھر ایک بار مسجد کی مجوزہ تعمیر پر اعتراض کیا ہے ۔ یو پی حکومت نے یہ اراضی ایودھیا میں مسجد کی تعمیر کے لیے تشکیل شدہ ٹرسٹ کے حوالے کی ۔ اترپردیش اسٹیٹ سٹی سنٹرل وقف بورڈ نے اس پلاٹ پر مسجد اور دیگر عمارات کی تعمیر کے لیے یہ ٹرسٹ تشکیل دیا تھا ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف حکومت اور عدالت کے سامنے کیا اہمیت رکھتا ہے یہ تو آزمایا جاچکا ہے ۔ اس وقت مرکز کی برسراقتدار حکومت ہو یا یو پی کی آدتیہ ناتھ حکومت دونوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ اس طرح کی حکومتوں کے آگے مسلم پرسنل لا بورڈ یا اور کوئی مسلم تنظیم حکومت کے سخت گیر رویہ کو چیلنج کرنے اور اپنی بات منوانے ، دستور ، جمہوری اور قانونی رو سے اپنا حق حاصل کرنے کے قطعی موقف میں نہیں ہے ۔ بابری مسجد کے متبادل کے طور پر اراضی کو قبول کرنا ہی غلط تھا تو آخر مسلمانوں کے دوسرے اداروں نے اس اراضی کو کیوں قبول کیا ۔ مسلمانوں اور مسلم تنظیموں میں جب باہمی اتحاد ہی نہ ہو تو حکومت اپنے ناپاک اور گھناؤنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لیے اس طرح کے حربے اختیار کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب دوسرے مقام پر مسجد کے لیے اراضی قبول کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا تھا تو دیگر مسلم تنظیمیں بھی اس موقف کی حمایت کرتے ہوئے اراضی کو قبول نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر عدم اتحاد ، عدم اتفاق ہی کی وجہ سے مسلمان کمزور ہورہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے مسلم ادارے ، مسلم تنظیمیں ، مسلم نمائندے آپس میں متحد ہوجائیں ۔ ہر اہم موضوع پر ان کے اندر باہمی اتحاد کے بعد ہی حکومت وقت کو چیلنج کرسکتے ہیں ۔۔
