جب سے رام مندر کی تحریک زور پکڑی او رسیاسی کھیل بن گئی اس سے کے بعد پہلی مرتبہ بی جے پی کے منشور میں رام مندر محض شامل کیاگیا ہے۔
اور نہ ہی 2019کی انتخابی مہم کے دوران کسی بھی سیاسی ریالی میں اس کی گونج سنائی نہیں دے رہی ہے۔
ایودھیا کے موڈ سے بھی اس بات کی توثیق ہوئی ہے کہ مندر تحریک کی جہاں سے شروعات ہوئی وہاں گروانڈ زور پر رام نومی کے موقع پر بھی ’’ مندر وہیں بنائیں گے ‘‘ دائیں بازوکارکنوں نے نعرہ لگایا
۔پچھلے سال جو رام نومی رتھ یہا ں سے نکلاتھا ‘ ناکامی اور مایوسی کے ساتھ جمعہ کے روز ایودھیاواپس لوٹا ۔ اودھ یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر اور ساہتیہ اکیڈیمی کے ایوارڈ ونٹر رام شنکر ترپاٹھی نے کہاکہ ’’ وزیراعظم نریند رمودی کے پاس ایودھیاکے بجائے بالاکوٹ زیادہ اہمیت کاحامل ہوگیاہے‘‘ ۔
پاکستان پر کئے گئے حملے کو بی جے پی جو حوالہ دے رہی ہے۔
بی جے پی کے فیض آباد سے امیدوار جس کے تحت ایودھیاآتا ہے کہ للو سنگھ نے کہاکہ’’ مندر نہیں حب الوطنی مسئلہ ہے۔ مندر کبھی موضوع تھا ہی نہیں۔
ہم تو مودی کے نام پر جتیں گے‘‘۔ پچھلے پچیس سال سے کارسیوک پورم میں جہاں گجراتی سنگ تراش ’ جئے شری رام‘ پر مشتمل اینٹیں تیار کررہے ہیں وہاں مذکورہ وی ایچ پی کے سنٹرل سکریٹری راجندر پنکج نے مندر کا مسئلہ ان انتخابی گونج کیوں نہیں رہا پوچھنے پر جواب دیتے ہوئے کہاکہ ’’ راشٹرواد ہی رام ہے‘‘۔
سال1989میں راجیو گاندھی کے ہاتھوں مندر کے اس شہر سے کانگریس کی انتخابی مہم شروع کرنے کے بعد سے یہاں پر آج تک کوئی وزیراعظم نہیں ائے ۔
مقامی بھولے ناتھ پانڈے نے کہاکہ ’’ ہمیں توقع تھی کہ رام بھکت مودی ایک مرتبہ یہاں ضرور ائیں گے۔ مگر انہوں نے بھی ایودھیاکو چھوڑ دیا‘‘۔
اس کیس کے مسلم فریق اقبال انصاری کا کہنا ہے کہ ’’ رام کے مندر پہلے سے وہا ں تیار ہے اورپانچ ہزار لوگ ہر روز پوجا کررہے ہیں۔ تو کیوں یہ بی جے پی کا انتخابی موضوع رہے گا؟‘‘