ایک اور امریکی رپورٹ

   

Ferty9 Clinic

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ایک اور امریکی رپورٹ
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک رپورٹ میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت پر تبصرے کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہاں مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔ ان کو دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا دیکھا جا رہا ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو مظالم ہو رہے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتیں انجام دی جا رہی ہیں۔ اندھا دھند گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور یہ سب کچھ قابل تشویش ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی آواز کچلی جا رہی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دوسرے اقلیتی گروپس کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی بنیادوں پر پیش آئے تشدد کے واقعات اور ان میں اموات کا تذکرہ بھی شامل ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ میں اس طرح کی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں ہندوستان میں اقلیتوں کی حالت کے تعلق سے تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔ جس وقت سے ملک میں این ڈی اے حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے ہی یہ حالات بدلنے لگے ہیں اور مسلمانوں کا جینا مشکل کیا جا رہا ہے ۔ ملک میں ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ہر طریقے سے انہیں نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اگر مسلم نوجوان محنت اور تیاری کرتے ہوئے سیول سروسیس کا امتحان کامیاب کرتے ہیں تو یہ بات بھی فرقہ پرستوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے اور اسے یو پی ایس سی جہاد کا نام دیا جا رہا ہے ۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف نریندر مودی حکومت بھی کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے اور بالواسطہ طور پر ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس سے حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ تجارت میں اگر مسلمان آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو انہیں معاشی مقاطعہ کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ سماجی میدان میں امتیاز برتنا عام بات ہوگئی ہے ۔ سیاسی حلقوں میں بھی مسلمانوں کو بھی محض ووٹ تصویروں تک یا تقریروں تک محدود کردیا گیا ہے اور ان کی نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے ۔
ملک میں صرف ایک خیال کو لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ مسلمانوں کی مخالفت یا دشمنی ہے ۔ عام عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ جو میڈیا اور ٹی وی چینلس ہیں وہ بھی حکومت کے غلام بن گئے ہیں اور سرکاری اشاروں پر ناچنے کے علاوہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے ۔ میڈیا میں مسلمانوںکو مشکوک رول میں پیش کرنا عام بات ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کا جب ہندوستان میں آغاز ہوا تو اسے تبلیغی جماعت کے مرکز سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ افواہیں پھیلاتے ہوئے اور گمراہ کن پروپگنڈہ کرتے ہوئے ابنائے وطن کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کیلئے کہا جا رہا ہے ۔ ان سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ اب تک ملک سے وفاداری اور محبت کے ثبوت مانگے جاتے رہے ہیں لیکن اب خود شہریت پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں در انداز قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہجومی تشدد کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان کا قتل کرنے والوں کو تہنیت پیش کی جا رہی ہے ۔ مرکزی وزراء ایسے مجرمین کی گلپوشی کر رہے ہیں۔ اس طرح سے حکومت کا یہ موقف واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا تو دور الٹا ان کو تہنیت پیش کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ یہ وہ رجحانات ہیں جو ہندوستان میں کبھی نہیں دیکھے گئے تھے اور حالات اتنے زیادہ سنگین کبھی نہیں ہوئے تھے ۔
ویسے تو ملک میں مسلمان اداروں اور درد مند تنظیموں کی جانب سے ایسے واقعات کو پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن اب بین الاقوامی سطح پر بھی ان واقعات کا تذکرہ ہونے لگا ہے جو دنیا بھر میں ہندوستان کی ساکھ کیلئے بہتر نہیں ہوسکتا ۔ حکومت کو ایسی رپورٹس کا نوٹ لینا چاہئے ۔ ان میں نشاندہی کردہ مسائل کی جانچ ہونی چاہئے ۔ جو عناصر ملک کی ساکھ اور اس کے وقار کو متاثر کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ محبت و امن کی شناخت رکھنے والے ملک کی شناخت عدم رواداری والے ملک میں بدلنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔