ایک چھوٹا جنتر منتر؟ کئی لوگ اس کو جامعہ اسکوئر کہہ رہے ہیں

,

   

مقامی لوگوں کی جانب سے 15ڈسمبر کے روزشہریت ترمیمی بل کے خلاف کیاجانے والا احتجاج پرتشد د ہونے اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کیمپس میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوکر

طلبہ کو زدوکوب کرنے کے بعد سے دہلی کے ”دھرنا چوک“ سے مماثل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر کی ایک کیلومیٹر تک پھیلی ہوئی سڑک چھوٹا جنتر منتر کی طرح دیکھائی دے رہی ہے۔

نئی دہلی۔احتجاجیوں سے بھری ہوئی ایک خانگی اسکول کی بس ہفتہ کی سرد دوپہر میں سڑک پر پہنچی تو‘ نصف درج سے کے قریب کم عمر اسٹوڈنٹس نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانکا اورزور دار نعرہ لگاتے ہوئے کہا”ہم انصاف چاہتے ہیں“۔

مظاہرین نے جواب میں ”انصاف“ کا نعرہ اپنا ہاتھ اٹھاکر لگایا۔فوری ردعمل اور نعروں کی گونج ایک دن کا کام نہیں ہے۔مقامی لوگوں کی جانب سے 15ڈسمبر کے روزشہریت ترمیمی بل کے

خلاف کیاجانے والا احتجاج پرتشد د ہونے اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کیمپس میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوکر طلبہ کو زدوکوب کرنے کے بعد سے دہلی کے ”دھرنا چوک“ سے مماثل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر کی ایک کیلومیٹر تک پھیلی ہوئی سڑک چھوٹا جنتر منتر کی طرح دیکھائی دے رہی ہے۔

اسکے بعد سے روز بہ روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہڈیوں کو منجمد کردینے والی سردیوں کے باوجود موقع پر اکٹھا ہورہے ہیں تاکہ آپنی آواز کو بلند کرسکیں۔

وہ پرامن طور پر احتجاج کررہے ہیں‘ سڑک پر بیٹھنے کے باوجود ٹریفک میں کسی قسم کا خلل نہ پڑے اس کاخاص خیال بھی رکھ رہے ہیں اور شام کے وقت ان میں کچھ سڑک کی صفائی کے کام پر مامور ہوجاتے ہیں۔

اس پھیلاؤ کے ساتھ یونیورسٹی کی دیوار کا کوئی حصہ ہی ایسا نہیں ہوگا جہاں پر نعروں پر مشتمل پلے کارڈس اور راست طور پر نعرے تحریرنہ کئے گئے ہیں۔

عوامی سائن بورڈس پر پینٹ سے ہم آہنگ کردیاگیا ہے

۔ سڑک کے دوکنارے سبز رنگ کی لوہے کی فینس ہے جس پر بیانرس او پوسٹرس چسپاں ہیں‘ جس میں مہاتما گاندھی کی زندگی پر مشتمل 80تصویروں کی نمائش کی گئی ہے اور 20X6کا بڑا سادہ بینر نصب کیاگیاتو جو اب حکومت کے نام پیغامات سے بھر گیاہے۔

ایک پندرہ سالہ اسکولی لڑکی نے پیغام لکھتے ہوئے کہاکہ ”ہمیں ملک سے باہر نکالا جارہا ہے“

۔بیانرس او ر پوسٹرس کی تشکیل کے لئے خصوصی طور پر تیار کئے گئے دو کاونٹرس سے اس نے سیاہ اسکیج پین خریدا۔ایک ریسرچ اسکالر محمد ذاکر نے کہاکہ ”ہم نے مشہور نعروں پر مشتمل کچھ بیانرس کا مطالعہ کیا۔

مظاہرین آمد کے موقع پر ہم سے وہ خرید رہے ہیں اور جب واپسی کے وقت وہ یہیں چھوڑ کر جارہے ہیں“۔

کچھ فاصلے پر گاندھیائی نظریات پر مشتمل کتابوں کی لائبریری ساحل ایم اے کے طالب علم نے کھوئی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لاء اسٹوڈنٹس کی جانب سے ایک لیگل ہلپ ڈسک چلایاجارہا ہے جو 15ڈسمبر کے روزپولیس بربریت کاشکار ہونے والے طلبہ او رعینی شاہدین کی قانونی مدد کررہا ہے۔

کرسمس کے موقع پر انہوں نے عیسائی سماج کے لوگوں کو مدعو کیاتھا۔اس احتجاج میں جامعہ کے سابق طلبہ بھی شامل ہوگئے ہیں