گذشتہ تقریبا ایک سال سے سرخیوں میں رہنے والی ریاست مغربی بنگال میں ایسا لگتا ہے کہ سیاسی پہئیہ ایک بار پھر سے گھوم رہا ہے ۔ گذشتہ ایک سال میں یہ دیکھا گیا کہ بنگال کی کئی اہم شخصیتوں نے سیاسی اتھل پتھل کے ماحول میں بی جے پی میںشمولیت اختیار کرلی تھی ۔ خود ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے کئی سینئر قائدین نے اپنے سیاسی مستقبل کو بی جے پی کے ساتھ وابستہ کرلیا تھا اور انہوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں مقابلہ بھی کیا تھا ۔ کئی فلمی شخصیتوں اور دوسری سربرآوردہ ہستیوں نے بھی بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا ۔ یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ بی جے پی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممتابنرجی کے اقتدار کا خاتمہ کر دے گی تاہم بنگال کے عوام نے مسلسل تیسری معیاد کیلئے ممتابنرجی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ بی جے پی کے خیمے میں سناٹا سا چھانے لگا ہے ۔ بی جے پی کے حلقوں میں مایوسی اعلانیہ طور پر دکھائی دینے لگی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سیاسی پہئیہ ایک بار پھر گھوم رہا ہے ۔ تاہم اس بار یہ پہئیہ الٹا گھوم رہا ہے اور بی جے پی کے کئی قائدین اب اپنے سیاسی مستقبل کے تعلق سے فکرمند نظر آنے لگے ہیں۔ اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی میں شامل ہونے والی سینئر لیڈر اور چار مرتبہ کی رکن اسمبلی سونالی گوہا نے کل ہی ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے بی جے پی سے لا تعلقی اور ترنمول کانگریس میں واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ انہوں نے ممتا بنرجی سے معذرت خواہی بھی کی تھی ۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی وہ بھی ممتادیدی کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ یہ در اصل سیاسی کھیل ہے جس میں پہئیہ اکثر و بیشتر گھومتا رہتا ہے اور توازن برقرار رکھنا اقتدار کے بغیر آسان نہیں رہتا ۔ سونالی گوہا کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ کئی دوسرے قائدین بھی ہیں جو حالانکہ اسمبلی کیلئے منتخب بھی ہوئے ہیں لیکن وہ بی جے پی میں اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ متصور نہیں کر رہے ہیں۔ وہ ترنمول کانگریس میںواپسی کرنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے ممتابنرجی کی حکمت عملی کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ ان کی مرضی اہمیت کی حامل ہے ۔
جہاں سونالی گوہا نے کھلے عام ممتا سے معذرت خواہی کی ہے اور ترنمول میں واپسی کا ارادہ ظاہر کیا ہے وہیں کہا جا رہا ہے کہ کئی ارکان اسمبلی ایسے بھی ہیں جو بی جے پی کی ہدایت کے باوجود مرکزی اداروں کی سکیوریٹی حاصل کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ قائدین نہیں چاہتے کہ وہ مرکزی اداروں کی نگرانی میں رہیں۔ حالانکہ وہ سر عام ایسا کہنے سے گریز کر رہے ہیں لیکن نجی حلقوں میں ان کے یہی تاثرات ہیں کہ سکیوریٹی کے نام پر بی جے پی ان پر نگرانی رکھنا چاہتی ہے اور وہ نگرانی میں رہنا نہیں چاہتے ۔ اب تک کم از کم تین ارکان اسمبلی نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ انہیں مرکزی اداروں کی سکیوریٹی نہیں چاہئے ۔ بی جے پی کیلئے دوسرے قائدین کو بھی باندھے رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ سینئر لیڈر شوبھیندو ادھیکاری کو بی جے پی نے قائد اپوزیشن بناتے ہوئے ایک عہدہ دیدیا ہے لیکن دوسروں کو پارٹی میں برقرار رکھنا اس کیلئے آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ ایک اور سینئر لیڈر مکل رائے کی بی جے پی میں برقراری کے تعلق سے بھی شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ حالانکہ مکل رائے نے 8 مئی کو ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انتخابی شکست کے باوجود بی جے پی کے ایک سپاہی کی طرح کام کرتے رہیں گے ۔ اس کے باوجود بھی ان کی ترنمول میں واپسی کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے اس تعلق سے کئی طرح کے خیالات کا اظہار کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔
ممتابنرجی نے بھی سیاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انتخابات میں اپنی پارٹی کی شاندار کامیابی کے دو دن بعد ہی اعلان کردیا تھا کہ پارٹی میں واپسی کرنے کے خواہشمند قائدین کیلئے ان کے دروازے کھلے ہیں۔ ان کے اس اعلان نے بی جے پی میں شامل ہوئے قائدین میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔ وہ اپنی واپسی پر کم از کم غور تو کرنے لگے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے بی جے پی کی حالت مزید کمزور ہوگی ۔ نہ صرف ارکان اسمبلی بلکہ بی جے پی کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ دنوں میں ترنمول میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ واضح کرتی ہے کہ دوسری جماعتوں کے قائدین کو شامل کرکے کوئی جماعت خود مستحکم نہیں ہوسکتی ۔
