بکروالوں نے عصمت ریزی او رقتل کے معاملہ میں سنائے گئے فیصلے کا خیرمقدم کیا‘ کہاکہ اعتماد بحال ہوا ہے

,

   

جموں کشمیر۔ عمومی طور پر چار دہوں قبل جب سے جموں کے راسانا گاؤں کے قریب انہوں نے اپنا کیمپ قائم کیاہے مذکورہ قبائیلی بکروالوں کا مقامی ہندو آباد کے ساتھ مدبھیڑ کا سامنا ہوا ہے۔

بکروالوں کا کہنا ہے کہ انہیں گاؤں سے باہر جبری طور پر باہر نکالنے کی ہندو ؤں نے کوشش کی‘ جس کے لئے وہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے‘ اور پانی جمع کرکے جو برتن رکھے ہوئے رہتے ہیں انہیں لات مار کر گردیتے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بکروال مسلمانوں نے مسجد بنانے کی کوشش کی اور اکثر گاؤں والوں کی زمین پر اپنے میویشے چھوڑ دیتے ہیں۔

کشیدگی میں پچھلے سال اس وقت اضافہ ہوا جب گاؤں کے سات لوگوں کی بکروال قبائیلیوں کی ایک اٹھ سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے الزام میں گرفتاری عمل میں ائی۔

مگر پیر کے روز ائے فیصلے جس میں چھ ملزمین کو سزا سنائی گئی ہے کہ مذکورہ قبائیلی کمیونٹی کے لوگوں کو امید ہے کہ کیس کا سایہ فرقہ وارانہ رشتوں پر نہیں پڑے گا۔

گجر اسکالر او رمصنف جاویدراہی نے کہاکہ ”پہلے جس طرح کا بھائی چارہ تھا ہم اسکو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

ہمارے جیسے حساس او رذمہ دار شہریوں کو چاہئے کہ وہ عدالتی فیصلوں کا اپنے باہمی تعلقات پر اثر ہونے سے نہ دیں“۔

راہی نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ اس فیصلے سے عدالتی نظام پر اعتماد بحال ہوا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہندوستانی عدلیہپر بھروسہ میں بھی اس سے اضافہ ہوا ہے۔

ہماری کمیونٹی گجر او ربکروال بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کھڑی ہے“۔

راہی نے کہاکہ ہماری لڑائی انصاف کے لئے تھی نہ کے دوکمیونٹیوں کے درمیان کی لڑائی تھی۔انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ہندوستان کا عدالتی نظام ذات پات‘ سماج‘ رنگ ونسل کو نہیں مانتا۔

ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں“