بی جے پی کے کامیابی کے دعوے

   

Ferty9 Clinic

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ادعا کیا ہے کہ بی جے پی کو بنگال اور آسام میں ہوئے پہلے مرحلے کے انتخابات میں مخالفین پر زبردست سبقت حاصل ہوگی ۔ انہوں نے تو نشستوں کی تعداد تک ظاہر کرنے سے گریز نہیں کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ بنگال میں جن 30 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے ہیں ان میں بی جے پی کو 26 پر کامیابی حاصل ہوگی اور آسام میں جن 47 نشستوں کیلئے پولنگ ہوئی ہے وہاں بی جے پی کو 37 نشستیں حاصل ہونگی ۔ ویسے تو انتخابات میں ہر سیاسی جماعت کی جانب سے کامیابی کا دعوی کیا جاتا ہے اور مخالفین پر سبقت حاصل کرنے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن جس طرح سے امیت شاہ نے نشستوں کی تعداد کے ساتھ کامیابی کا دعوی کیا ہے وہ قابل غور ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ بنگال میں پہلے مرحلے میں جب ووٹ ڈالے گئے تھے ترنمول کانگریس نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ووٹرس نے اس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا لیکن یہ ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں چلے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ الزامات ابتدائی نوعیت کے ہیں اور ان کی حقیقت کا پتہ چلانے کی کوششیں بعد میں ہوسکتی ہیں لیکن امیت شاہ کی جانب سے نشستوں کی تعداد کے ساتھ کامیابی کا دعوی کیا جانا معنی خیز بھی ہوسکتا ہے ۔ اس پس منظر میں ترنمول اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی سے قبل نشستوں کی تعداد کے ساتھ کامیابی کا دعوی کرنے کی بنیادوں کا پتہ چلایا جاسکے ۔ علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں ایگزٹ پولس پر امتناع عائد ہے تاکہ آئندہ مراحل میں پولنگ پر یہ ایگزٹ پولس اثر انداز ہونے نہ پائیں۔ سیاسی قائدین کی جانب سے حالانکہ ایسے دعووں پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن امیت شاہ نے ایک طرح سے ایگزٹ پولس کی طرح رائے ظاہر کی ہے اور اس کا مقصد بھی ووٹرس پر اثر انداز ہونا ہوسکتا ہے ۔ ملک کے وزیر داخلہ کو تاہم ایسی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت تھی ۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کا مقصد و منشا ہوتا ہے اور اس کیلئے عوام کے ووٹوں پر انحصار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیاسی ہتھکنڈوں سے اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں مناسب نہیں کہی جاسکتیں اور خاص طور پر ذمہ دار سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ بنگال میں انتخابات کے ابھی سات مراحل باقی ہیں جبکہ آسام میں مزید دو مراحل میں ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں۔ ایسے میں امیت شاہ کو نشستوں کی تعداد کے ساتھ ایگزٹ پولس کی طرح کامیابی کی پیش قیاسی یا دعوی کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کیلئے سیاسی ریلیاں اور جلسوں کی گنجائش ہے اور دوسرے انتخابی مہم کے دوسرے طریقے بھی اختیار کئے جاسکتے ہیں لیکن ہتھکنڈوں اور حربوں کے ذریعہ ووٹرس پر اثر انداز ہونے کی کوششیں درست طریقہ نہیں ہوسکتیں۔ بنگال اور آسام کے ووٹرس کو تاہم اس طرح کے ہتھکنڈوں اور حربوں اور پروپگنڈہ مہم کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہیں اپنے مسائل ‘ موجودہ حکومتوں کی کارکردگی ’ وعدوں کی تکمیل اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جاری کردہ منشور کی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاست اور عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی حربوں اور ہتھکنڈوں کا شکار ہوئے بغیر سیاسی فراست اور غور و خوض کے بعد ہی ووٹرس کو اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے ۔
ذمہ دار سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو بھی ایسے بیانات اور دعووں سے گریز کرنا چاہئے جن سے عوام کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ انہیں مثبت انداز میں مہم چلاتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ عوام کو اپنی کارکردگی سے واقف کرواتے ہوئے مستقبل کے منصوبوں اور پروگراموں کو پیش کرتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ انتخابی مہم کو منفی انداز میں چلاتے ہوئے اگر کامیابی حاصل کر بھی لی جائے تو اس کے ملک کی جمہوریت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس بات کا سبھی کو خیال رکھنا چاہئے ۔ سیاسی اقتدار اور کامیابی اپنی جگہ لیکن ملک کی جمہوریت اور اس کے اقدار سے کسی کو بھی کھلواڑ کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔