اترپردیش کے شہر آگرہ میں ایک دواخانہ میں 26 اپریل کو ایک طرح سے 22 مریضوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جس پر دواخانہ کے مالک کا کہنا ہے کہ اس نے تجرباتی اساس پر ان مریضوں کی آکسیجن روک دی تھی اور صرف پانچ منٹ میں مریض زندگی کی جنگ ہار گئے ۔ آگرہ کے پارس ہاسپٹل کے مالک نے ایک ویڈیو میں یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 26 اپریل کی صبح محض یہ دیکھنے کیلئے مریضوںکی آکسیجن روک دی تھی کہ ان میں کتنے بغیر آکسیجن کے زندہ رہ سکتے ہیں۔ان کا بیان بھی انتہائی احمقانہ بلکہ گمراہ کن ہے اور وہ اپنے ہاتھوں 22 مریضوں کی جان لینے کے بعد گمراہ کن بیانات دیتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے تو دیکھا گیا ہے کہ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت میں جنگل راج چل رہا ہے ۔ کہیں کوئی قانون نام کی چیز نہیں ہے ۔ انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ وہاں انہیں تجربات کے نام پرعملا قتل کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ گنگا ندی میںکورونا سے فوت ہونے والوں کی نعشیں بہہ رہی ہیں۔ ریت میں انہیںدبایا جا رہا ہے جو بعد میں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ اس کے باوجود آدتیہ ناتھ کی حکومت خواب غفلت کا شکار ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس حکومت نے کورونا سے نمٹنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدتیہ ناتھ کی حکومت کی مکمل نا اہلی کورونا بحران میں سامنے آچکی ہے ۔ اترپردیش کے عوام کو انتہائی مشکل ترین صورتحال کا سامنا رہا اس کے باوجود آدتیہ ناتھ آمرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ وہ حالات کو بہتر بنانے کی بجائے شکایت کرنے والوں کو مقدمات کی دھمکیاں دے رہے تھے ۔ اب ایک دواخانہ میں عملا مریضوں کو قتل کردیا گیا اور اس دواخانہ کا مالک بچکانی ‘ احمقانہ اور گمراہ کن بیانات دیتے ہوئے اپنے دفاع کی کوشش کر رہا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ ریاستی محکمہ صحت کی جانب سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ یہ تحقیقات کس انجام کو پہونچیں گی یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس خاطی کے ہاتھوں 26 جانیں چلی گئیں اور آدتیہ ناتھ کی حکومت اب بھی رپورٹ اور تحقیقات کے بہانے پیش کرنے میں مصروف ہے ۔
اترپردیش میں جنگل راج کی صورتحال کا اندازہ کرنے یہی ایک واقعہ کافی ہے جبکہ بے شمار واقعات ایسے پیش آئے ہیں جہاں لوگ ایک ایک سانس کیلئے ترستے ہوئے زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ نہ وہاںڈاکٹرس دستیاب تھے اور نہ دوائیں مل رہی تھیں۔ نہ آکسیجن فراہم کی گئی اور نہ وینٹیلیٹرس کا انتظام کیا گیا ۔ دواخانوں میں بستر تک مریضوں کو نہیں مل رہے تھے اور وہ دواخانہ کی راہداریوں میں پڑے پڑے اپنی سانسیں گننے پر مجبور کردئے گئے تھے ۔ جس واقعہ کا اب انکشاف ہوا ہے وہ انتہائی مذموم اور بہیمانہ ہے اور اس میں تحقیقات کے نام پر وقت ضائع کرنے کی بجائے خاطی ڈاکٹر کو فوری گرفتار کرنا چاہئے ۔ اس کے خلاف سخت ترین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے پھانسی کی سزا دلائی جانی چاہئے ۔ نہ صرف یہ بلکہ مریضوں کے آکسیجن بند کرنے کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلانا ہوگا ۔ اس کیلئے انتہائی ذمہ داری اور غیر جانبداری کے ساتھ تحقیقات کی جانی چاہئیں جو موجودہ حالات میں آدتیہ ناتھ کی حکومت میں ممکن نظر نہیں آتا ۔ سی بی آئی کے ذریعہ یا کسی غیر جانبدار ادارے کے ذریعہ تحقیقات کرواتے ہوئے نہ صرف دواخانہ کے مالک کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جانا چاہئے بلکہ محکمہ صحت کے ذمہ داروں کو بھی اس میں ماخوذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاطی ڈاکٹر کے ساتھ جتنے بھی لوگ اس واقعہ کیلئے ذمہ دار ہیں ان کے کسی رحم کے بغیر کارروائی ہونی چاہئے ۔
اس ایک واقعہ نے اترپردیش کی ساری صورتحال کو آشکار کردیا ہے کہ کس طرح سے حکومت وہاں انسانی جانوں کا تحفظ کرنے اور انہیں علاج کی سہولت فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے ۔ آج بھی وہاں حالات بہتر نہیں ہیں اور حکومت خواب غفلت میں ہے ۔ چیف منسٹر آدتیہ ناتھ اب بھی آمرانہ روش برقرار رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی کی کوئی بات سننے اور سمجھنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ وہ اترپردیش کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھنے لگے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ایک دواخانہ بلکہ ریاست کے تمام دواخانوں کے تعلق سے جامع تحقیقات کی جائیں۔ ذمہ دار ڈاکٹرس ‘ طبی اور نیم طبی عملہ کے علاوہ محکمہ صحت کے ذمہ دار عہدیداروں کو بھی اس میں ماخوذ کیا جائے اور ان کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جائے ۔
