وادی میں چاروں طرف پر تشدد احتجاج کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
سری نگر۔ جموں کشمیر کی تنظیم جدید کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ جمعہ کی دوپہر گوپاکار کے وی ائی پی علاقے اور نہرو پوائنٹ سے وادی کے تاریخی درگاہ حضر ت بل تک غیریقینی صورتحال کامنظر تھا۔
حجاب پہنی ہوئی خواتین جو گھر وں سے درگاہ کو جمعہ کی نماز کے لئے جارہی تھیں ان کی تعداد مردوں سے زیادہ تھیں۔ ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے لال بازار کی رہنی والی نورجہاں نے کہاکہ ”نماز کوئی نہیں روک سکتا“۔
انہوں نے ارٹیکل370کوہٹائے جانے کے سوال کو نظر انداز کردیا مگر کہاکہ درگاہ جانے کے راستے میں انہیں سکیورٹی فورسس نے نہیں روکا’اگر وہ روکتے تب بھی ہم نہیں روکتے“‘۔
جموں کشمیر انتظامیہ کے مطابق سری نگر میں اٹھارہ ہزارسے زائد‘ بڈگام میں 7500اور اننت ناگ11000سے لوگ نماز کے لئے باہر ائے تھے۔
پچھلے روز رات تک یہ خبر تھی کہ جمعہ کی نماز کے لئے برہمولا‘ کلگام اور شوپیان سے چار ہزار سے کم لوگ اکٹھا ہوئے تھے۔ رائٹرس کی خبر کے حوالے سے ایک پولیس عہدیدار اور دو عینی شاہدین نے کہاکہ سری نگر میں د س ہزار سے زائد مظاہرین سے مقابلے کے لئے پولیس نے پیلٹ اور آنسو گیاس کا استعمال کیا۔
جب سے وادی میں انتظامیہ نے پابندیاں عائد کی ہیں اور ٹیلی فون لائن کے علاوہ انٹرنٹ سروسیس مسدود کئے ہیں‘ جمعہ کی نماز کے فوری بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور انتظامیہ نے پانچ سو لیڈران کو گرفتار کرلیا۔
شیر کشمیر انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس کے پاس ایک عینی شاہد نے کہاکہ ”جمعہ کے پانی میں سری نگر کی اس مسجد میں نماز ادا کرنے والے مصلیوں میں جہاں پر سکیورٹی اہل کار بھی شامل تھے ان کے ساتھ کچھ عورتوں اوربچے بھی شامل ہوگئے“۔
ایک او رعینی شاہد نے کہاکہ ”وہ (پولیس) ہم پر دوطرف سے حملہ کررہے تھے“۔ایک پولیس افیسر نے کہاکہ پیلٹ سے زخمی ہونے کے بعد بارہ لوگوں وک اسپتال میں داخل کیاگیا ہے۔
مذکورہ انتظامیہ نے مخصوص ہدایت میں کہاتھا کہ نماز کے لئے چھوٹی گروپس کو محلے کی مساجد میں اجازت ہے مگر ان مقامات پر جہاں عام طور پر نماز جمعہ ادا کی جاتی جیسے جامع مسجد اور درگاہ حضرت بل اس میں شامل ہیں۔
جنھیں نہرو پالیس‘ سونوار اور شیو پوراکی اہم مساجد میں نماز ادا کرنے کی خواہش تھی انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تین مساجد میں ٹی اوائی نے دورہ کیا‘ جہاں پر لوگوں نے کہاکے کافی تعداد میں لو گ نماز کے جمع ہوئے اور کسی قسم کی پتھر بازی کے واقعات میں ملوث ہوئے بغیر بخیر وعافیت اپنے گھر واپس بھی پہنچ گئے