نازیہ عشرت بنت مؤمن
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’حمد و شکر اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے زمین و آسمان پیدا کئے‘‘ (سورۃ الانعام) اس مختصر سی آیت کو بار بار پڑھئے، نہایت دل بستگی سے پڑھئے، ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے اور غور کیجئے کہ اس میں ایک نہایت اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔انسان کی عظمت، شرافت، انسان کا سرچشمہ جذبہ شکر ہے۔ اسی جذبہ کی بدولت آدمی ایمان جیسی نعمت پاتا ہے۔ وہ کم نصیب ایمان کی دولت نہیں پاسکتا، جو شکر کے جذبہ سے محروم ہو۔ قرآن پاک بار بار خدا کی بے پایاں نعمتیں یاد دلاتا ہے، طرح طرح سے اس کے بے حد و حساب احسانات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انسان کی فطرت اور ضمیر کو جھنجھوڑکر جذبہ شکر کو ابھارتا ہے، اس لئے کہ خیر کی ساری راہیں اسی جذبہ شکر سے کھلتی ہیں۔جذبہ شکر ہی انسانی شرافت کا اصل جوہر ہے، جو اس جذبہ سے محروم ہے وہ ہر خیر سے محروم ہے اور جو بندہ اپنے سب سے بڑے محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ کسی کا شکر گزار نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے کسی معاملے میں اس سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی، جو خدا کا حق نہیں سمجھتا، وہ بندوں کا حق کیا سمجھے گا۔حمد و شکر اللہ تعالی ہی کے لئے ہے، یہی اشارہ قرآن کی ترتیب سے بھی ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سب سے پہلی سورہ ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ شکر کے جذبات طاری کرتی ہے اور دوسری سورہ ’’سورۃ البقرہ‘‘ ایمان کی دعوت دیتی ہے۔یہی جذبہ خیر کی راہیں کھولتا ہے اور ایمان کی بنیاد بناتا ہے۔ جو اس جذبہ سے محروم ہے، وہ قرآن سے محروم ہے۔ جذبہ شکر ہی کی بدولت آدمی ایمان کی دولت پاتا ہے، اسی کے سہارے وہ ایمان کی راہ پر قائم رہتا ہے اور اسی کی بدولت وہ اس راہ میں آگے بڑھتا ہے اور ایمان و اخلاق کی اعلی منزلیں طے کرتا ہے۔