حضرت عبدالحق رحمہ اللہ کا پیغام اُمت کے نام

   

مولوی محمد بشیر الدین نظامی
اﷲتعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے اپنے حبیب پاک ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے۔ معاشرہ میں تبدیلی ہمیشہ ایک آدمی لاتا ہے، جسے ہم رہنما کہتے ہیں۔ جس کے پاس نہ صرف لوگوں کو خواب دکھانے کا، بلکہ اس خواب تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور اُسے جینے کے اصول بھی بتلادیتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں، جن کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ اپنے انہی الفاظ کے مطابق’’حضرت مولوی الحاج محمد عبدالحق رحمہ اﷲ، بانیٔ دارالعلوم عربیہ‘‘ صحیح معنوں میں رہنما ہیں۔ جن کی زندگی کا مقصد، اسلام کی سربلندی اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی رضا میں نظر آتی ہے۔ آپ رحمہ اﷲکی ولادت ۱۳۱۱؁ہجری میں بمقام کاؤرم پیٹہ ہوئی اور وصال ۱۶؍ صفر المظفر ۱۳۶۸؁ ھ کو ہوا ۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد ’’محمدسلیمان صاحب رحمہ اﷲ‘‘ سے حاصل کی۔ پھر اپنے مشفق اساتذہ عظام سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ آپ رحمہ اﷲ بڑے سخی صفت کے مالک تھے۔ تجارت میں کمائی سے زیادہ خدمت پیش نظر رکھتے اور اپنے ملازمین کو بھی کم منافع میں اشیاء، فروخت کرنے کی تاکید فرماتے ۔ اور بیروزگاروں کو کپڑا اُدھار دیتے، تاکہ وہ آسانی کے ساتھ آمدنی حاصل کرسکے۔ اور جب مستقل گاہکوں کی بات آتی تو وہاں بھی آپ کارِ خیر کا جذبہ بیدار کرتے نظر آتے۔ اور آپ کی مہمان نوازی کا یہ معمول تھا کہ جب بھی آپ کی بستی میں کوئی مسافر آتا تو آپ اپنے مکان سے اُس کے کھانے کا انتظام کرتے۔ اِس طرح کوئی سائل آپ کے مکان سے خالی ہاتھ نہ جاتا۔ اگر کوئی بڑا معاملہ ہوتا تو آپ رحمہ اﷲ اپنی تحریر کے ساتھ اپنا آدمی دیگر صاحبانِ خیر کے پاس روانہ کرتے اور وہ صاحبانِ خیر کا آپ پر اتنا اعتماد اور اعتبار تھا کہ جب بھی آپ کسی سائل کو بھیجتے، وہ حضرات کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔
آپ رحمہ اﷲمصلحِ قوم بن کر لوگوں کی اصلاح کرتے نظر آتے۔ شریعت مطہرہ کی پابندی آپ کی زندگی کا شیوہ رہا۔ اور آپ کی زندگی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی تفسیر تھی۔ اچھائی کی دعوت دیتے اور برائی سے روکا کرتے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے جو برائی دیکھے تو اُسے ہاتھ سے روک دے، اگر اُس کی طاقت نہ ہوتو زبان سے روکے، اگر اِس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں بُرا جانے اور یہ کمزور ایمان ہے‘‘۔ اِ س حدیث کو عملی طور پر آپ رحمہ اﷲ نے اپنایا۔
نماز باجماعت کی تحریک : آپ رحمہ اﷲنمازوں کی پابندی پر سختی سے عمل کرتے اور دوسروں کو بھی اِس کی تاکید کرتے۔ آپ کی طرزِ زندگی، احادیث شریفہ کی تشریح نظر آتی ہے۔ اﷲ کے حضور حاضر ہونے اور جماعت سے نماز ادا کرنے کا جذبہ آپ کی زندگی کو نمایاں کرتا ہے۔ آپ رحمہ اﷲ کے کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ مدرسہ ’’دارالعلوم عربیہ، کاؤرم پیٹہ نصابی شاخ ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی ہے ۔‘‘ کا قیام ہے۔ یہ اقامتی ادارہ ۱۳۴۲ ھ م ۱۹۲۴ء میں قائم کرکے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے الحاق کئے ۔
الحمد ﷲ یہ ادارہ اپنے مقصدِ قیام میں کامیابی کے ساتھ سفر جاری رکھتے ہوئے علماء ، مشائخ اور مشاہرِ قوم کا اعتماد حاصل کرچکا ، یہاں کے فارغین نہ صرف اِس ملک میں، بلکہ بیرونِ ممالک میں روشن چراغ کی طرح اُجالے بانٹ رہے ہیں۔ اِسکے علاوہ باطل تحریکوں، نصرانیت، قادیانیت کا مؤثر مقابلہ کیا اور حق کے پرچم کو بلند کیا۔ اور کاؤرم پیٹہ و اطراف کے علاقوں سے جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کیا اور نشہ سے مسلم برادری کی حفاظت کی۔ اور مسلم تاجروں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی ترغیب دی۔ تادمِ زیست شریعتِ مطہرہ کی خدمت انجام دی۔ اور اطراف و اکناف کے علاقہ میں اصلاحی کارنامے انجام دیتے رہے۔ آپ رحمہ اﷲ کی زندگی مشعلِ راہ اور مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے لوگ ہمیشہ فیض پاتے رہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا