حافظ صابر پاشاہ
حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام نے خود کو علم و حکمت کا شہر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے۔ حضرت علی ؓشیر خدا علم و حکمت اور بصیرت کے وہ عظیم رجل ہیں جن کے ارشادات سے انسانیت ہمیشہ رہنمائی لیتی رہے گی۔ آپؓ کی عظمت وشان ، مقام ومرتبہ ، علم وعمل، زہد و تقوی ،فضل و کمال ،جود وسخا، شجاعت وبہادری ، حکمت ودانائی اور قضا وقدر کی گرانقدر صلاحیتیں اہل علم کے نزدیک تواترسے ثابت ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو جوکمالات ِ علمی وراثت نبی سے حاصل ہوئےاس کی ایک جھلک سورۃ الفاتحہ کی تفسیر کے بیان کےلئے ہی کافی ہے ۔ اُمت مسلمہ کیلئے حضرت علی ؓکی ذات علم و معرفت کا خزینہ ہے۔ حضرت علیؓ کے مطابق لوگ تین قسموں کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ کٹے ہوئے پتوں کی طرح ہوتے ہیں جدھر ہوالے جائے چلے جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ نجات کے راستے کے طلبگار ہوتے ہیں انہیں دوزخ سے خلاصی اور جنت کی طلب ہوتی ہے۔ تیسری قسم کے لوگ جنت سے اوپر کی منزلوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور انہیں علماء ربانیین کہتے ہیں۔ عالم ربانی کو تلاش کرو اور ہوا کے رخ پر چلنے والوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو۔ عالم ربانی مل جائے تو اس سے محبت کرو کیونکہ عالم ربانی سے محبت کا نام دین ہے۔ اسکے چہرے میں اللہ کے نور کی جھلک نظر آتی ہے ۔علم ادب سیکھنے سے آتا ہے اور ادب کے ساتھ علم نافع حاصل کرنا نیکی ہے۔ حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ علم ریاضت کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔ اُمت مسلمہ ترقی اور عروج چاہتی ہے تو حضرت علی ؓشیر خدا کی نصیحت پر عمل پیرا ہو جائے اور علم نافع کے حصول کو پہلی اور آخری ترجیح بنالے۔ آپ ؓ قراٰنِ کریم کی آیات کے بارے میں جانتے تھے کہ کون سی آیت کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے۔ایک مقام پر مولا علی مشکل کُشا نے فرمایا : اللہ پاک کی قسم! میں قراٰنِ کریم کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کہاں نازِل ہوئی ہے اور کس کے بارے میں نازِل ہوئی ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو اگر کسی معاملے میں حضرت علی ؓکے فتوے کا علم ہوجاتا تو صحابۂ کرام علیہم الرضوان آپ کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے ، وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔