حافظ صابر پاشاہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر کا چونیتسواں سال تھا کہ مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت کا اعلان فرمادیا۔ گوملکی رسم و رواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان غنی ؓکیلئے یہ آواز نامانوس تھی، تاہم وہ اپنی فطرت عفت، پارسائی، دیانتداری اور راستبازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کیلئے بالکل تیار تھے۔ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق ؓکے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر ؓکی گفتگو سے آپؓ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائنات ﷺتشریف لے آئے اور حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر فرمایا ’’عثمان ؓ! خدا کی جنت قبول کر‘‘ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عثمانؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور آپ ﷺدست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’ میری امت میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی‘‘۔(اصابه)حضرت فاروق اعظمؓ کے بعدتمام احباب نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو اتفاق رائے سے منظورکرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔عہد عثمانی ؓ میں فتوحات کا سلسلہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، الجزائز، رقہ، مراکش، سپین ۲۷ ہجری میں مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کوپہنچی۔ ذوالنورین حضرت عثمان غنی ؓ کے گھر کا باغیوں نے چالیس دن تک محاصرہ کرنے کے بعد آپؓ کو شہید کردیا ۔ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ o یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصرو مغرب کے درمیان ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ہجری کو پیش آیا۔