وہ 1985سے تربیت دے رہے ہیں اور شہر بھر کے پہلوانوں کے ساتھ متعدد میاچوں میں حصہ لیاہے مگر ریاستی اور قومی سطح پر نمائندگی کا انہیں کبھی موقع نہیں ملا
حیدرآباد۔قلعہ گولکنڈہ کے قریب میں ایک66سالہ معمر شخص نوجوانوں کے لئے حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ محمد اجمیر خان جو16 سال کی عمر سے مشقت کررہے ہیں‘ اب اگلے نسل کو اپنے فن کی منتقلی کے امید سے تربیت دے رہے ہیں۔
وہ 1985سے تربیت دے رہے ہیں اور شہر بھر کے پہلوانوں کے ساتھ متعدد میاچوں میں حصہ لیاہے مگر ریاستی اور قومی سطح پر نمائندگی کا انہیں کبھی موقع نہیں ملاہے۔
ان کے کئی اسٹوڈنٹس میں سے کئی نے پولیس خدمات میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔اپنی غیر معمولی صحت کے متعلق خان کا کہنا ہے کہ غذا اور ان کی سخت روزمرہ کی زندگی ہے۔
وہ محمدیہ تعلیم میں تربیت دیتے ہیں‘ جہاں پر وہ فیملی کے دیگر چھ افراد کے ساتھ مقیم ہیں۔ خان نے مشورہ دیاکہ ”مذکورہ نوجوانوں کو چاہئے کے وہ صحت مند لائف اسٹال پر عمل کریں‘ روز دوڑ لگائیں اور موبائیل فونوں کاکم استعمال کریں۔
اؤٹ ڈورس میں وقت گذارنا بھی کافی بہتر ہے“۔انہوں نے مزید حکومت سے معاشی مدد کا استفسار کیاکیونکہ ان کے پاس تربیت کے لئے جزوی فیس کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی کا نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ”میرے والد او ربردارس نظام کی فوج کا حصہ تھے اور بعد میں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں خدمات انجام دئے ہیں۔
تربیت کی فیس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی کا نہیں ہے کیونکہ میرے والدکو ریٹائرمنٹ کے بعد نظام کی جانب سے وعدہ کی گئی پانچ اراضی نہیں دی گئی ہے“۔انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں حکومت سے معاشی مدد کی درخواست کرتاہوں اور میرے اسٹوڈنٹس کے لئے بھی درکار آلات اور حوصلہ افزائی کے لئے بھی مدد کی گوہار لگاتاہوں“۔
اجمیر خان کے اسٹوڈنٹس میں سے ایک محمد یحییٰ خان نے اپنے کوچ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے اپنے استاد سے کافی کچھ سیکھا ہے۔مذکورہ اسٹوڈنٹ نے کہاکہ ”سر ہمیشہ رحمدلی اور پہلوانی کے نام پر غنڈہ ازم کے حوصلہ شکنی کی بات کرتے ہیں۔
ان کی کلاسیس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ ہمیشہ سیدھا راستہ دیکھاتے ہیں“۔
محمدیہ تعلیم قلعہ گولکنڈہ کے قریب میں ہے جس کی بنیاد سب سے پہلے مدیح خان استاد نے ڈالی تھی جہاں سے کافی معروف حیدرآباد پہلوان جیسے شیواجی پہلوان اور صدیق پہلوان نے میدان کشتی میں اپنے جوہر دیکھائے ہیں