خطبات حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ

   

حافظ محمد ذاکر پاشاہ نظامی
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے زبان و قلم کردار و عمل اور جان و مال ہر اعتبار سے دین مصطفویﷺ کی اشاعت کی اور اس کی تقویت کا سامان فرمایا ان میں آپ کی تصنیف لطیف اور آپ کے مواعظ کا کیمیاء اثر مجموع الفتح الربانی الفیض الرحمانی ہے۔ یوں تو آپ کے ارشادات ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور ہر ارشاد قوم وملت کی ترقی کے لئے راہنما ہے۔ روئے سخن الفتح الربانی میں صرف بانسٹھ مجالس میں فرمودہ ارشادات کا احاطہ کیا گیا اور جس ارشاد پر نظر ڈالیں وہی ارشاد خضر راہ نظر آتا ہے ( صاحب قلائد لکھتے ہیں کہ آپ کی ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی یہودی یا عیسائی مشرف بہ اسلام ہوتا ڈا کو قاتل اور دیگر جرائم پیشہ اور بد عقیدہ لوگ تائب ہوتے جب آپ کرسی پر تشریف فرما ہوئے تو تیرہ (۱۳)  علوم وفنون میں گفتگو فرماتے اور ہیبت اتنی ہوتی کہ مجمع پر سناٹا چھا جاتا۔ سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں میرے ہاتھوں پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودی و نصاری تائب ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ رہزنوں اور فسق و فجور میں مبتلا افراد جنہوں نے میرے ہاتھوں پرتو بہ کی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔آپ نے محض گوشہ نشین ہو کر زندگی بسر نہیں کی بلکہ آپ فیضان محمد ی ﷺ کی وہ قندیل تھے کہ جس کے فیض سے ہر شعبہ زندگی مستنیر ومستفیض ہوا۔ آپ کی نگاہ کیمیاء کے اثر نے دنیا کے معاشرے کے گم کردہ راہ لوگوں کا علاج ایک حاذق حکیم کی طرح کیا۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماروں کے دکھوں کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ ان کے اندر اتر کر انہیں حیات تازو سے سرفراز کیا۔ آپ فتح الربانی میں فرماتے ہیں جس شخص کا علم زیادہ ہو اُسے چاہئے کہ خوف خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے۔اخلاص و عمل ! دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہ الہی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے۔ اگر وہ ریا کاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کے لئے کیا جائے ۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضور حق میں بڑی قدر و منزلت کا حامل ہوتا ہے۔ صوفیاء کرام کی حیات طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں اور اپنے مریدین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ حضورسیدنا غوث الاعظم فرماتے ہیں :’’خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کراس نے سب اندازے لگائے ہیں وہی کارساز ہے دوسرے نہیں۔ روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزق حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے۔ اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟