دہلی آرڈیننس۔ این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان راجیہ سبھا میں لڑائی کے پیش نظر تمام غیر وابستہ جماعتوں پر سب کی نظریں

,

   

مذکورہ بل پیرکے روز لوک سبھا میں پیش کئے جانے کی توقع تھی مگر یہ قیاس لگایاجارہا ہے کہ جمعرات کے روز راجیہ سبھا میں پیش کیاجائے گا۔
نئی دہلی۔ دہلی خدمات ارڈیننس کی منظوری کو یقینی بنانے کے لئے مذکورہ برسراقتدار این ڈی اے کو بیجو جنتا دل اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی‘ نامز د ممبرس اور رآزاد اراکین کی حمایت پر راجیہ سبھا میں انحصار کرنا پڑیگا۔ جبکہ منگل کے روز کابینہ کی جانب سے منظور کئے گئے اس بل کو پارلیمنٹ میں کب پیش کیاجائے گا اس پرکوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیاہے‘ متعدد پارٹیوں نے جمعرات کے روز راجیہ سبھا میں موجود رہنے کے لئے اپنے ممبر س کووہپ جاری کیاہے۔

لوک سبھا میں این ڈی اے کافی مطمئن ہے۔ تاہم دواتحاد بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اور اپوزیشن کا انڈیابلاک راجیہ سبھا میں یکساں طور پرتیار ہیں حالانکہ حکمران اتحاد نے ہمیشہ ایوان بالا میں اپنے قانون سازی کے کام کی منظوری کو یقینی بنانے کے لئے غیرمنسلک جماعتوں کی حمایت حاصل کی ہے۔

بعض ممبرس نے راجیہ سبھا چیرمن کو لکھا ہے کہ جمعرات کے روز قانون سازی بزنس میں ذیلی ایجنڈہ کے طور پر دہلی خدمات کے حوالے سے بل کو منظوری نہ دیں۔

مذکورہ بل پیرکے روز لوک سبھا میں پیش کئے جانے کی توقع تھی مگر یہ قیاس لگایاجارہا ہے کہ جمعرات کے روز راجیہ سبھا میں پیش کیاجائے گا۔راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے پاس101ممبرس ہیں‘ وہیں 26پارٹیوں پر مشتمل انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس (انڈیا)کے 100قانون ساز ہیں۔

غیر اتحادی پارٹیوں کے 28ممبرس ہیں۔نامزد زمرے میں پانچ اور تین آزاد ہیں۔ غیراتحادی 28ممبرس میں سات ممبر بھارت راشٹریہ سمیتی کے ہیں وہیں جو توقع کی جارہی ہے کہ اپوزیشن بلاک کے ساتھ ووٹ کریں گے۔

مذکورہ بی جے ڈی او روائی ایس آر کے نو ممبرس ہیں اوربرسراقتدار بلاک کو ان کے حمایت میں یہ ووٹوں کی امید ہے۔مذکورہ بی ایس پی‘ جے ڈی(ایس)‘ اورٹی ڈی پی کے ایوان بالا میں ایک ایک ووٹ ہے اور ان ووٹوں پر بے چینی کے ساتھ نظر رکھی جائے گی۔ عام طور پر نامزد ممبرس کی حمایت حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔

دہلی میں سرکاری خدمات کے حوالے سے منتخب ریاستی حکومت کو سپریم کورٹ کی جانب سے اختیارات دئے جانے کے ایک ہفتہ کے اندر 19مئی کے روزمرکزی حکومت نے اس متنازعہ دہلی آرڈیننس بل کو متعارف کروایاتھا‘ جس کے تحت سرکاری عہدیداروں کا تقرر‘ تبادلہ اور تعیناتی پر فیصلہ کیاجانا ہے‘ اروند کجریوال کی زیرقیادت منتخب حکومت کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ اختیارات دئے تھے۔